اسلام آباد
07مئی 2015ء
پریس ریلیز

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے جمعرات کو ایک مشاورت کا اہتمام کیا۔ مشاورت کے اختتام پر 11نکاتی منشور منظور کیا گیا جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ انسانی حقوق کے محافظین کی سلامتی وتحفظ کو یقینی بنایا جائے اور ان کے کام میں ان کی معاونت کی جائے۔
مشاورت میں سول سوسائٹی کے نمائندوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی جس کے آغاز میں پاکستان بھر میں مارے جانے والے انسانی حقوق کے محافظین (ایچ آرڈیز) کی یاد میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ مشاورت میں ایچ آر ڈیز کے کردار کا ادراک؛ محافظین کو درپیش مشکلات اور کام کار کا ماحول؛محافظین کے کام میں رکاوٹیں ڈالنے والے اور معاونت کرنے والے عناصر؛ محافظین کے تحفظ کے لیے سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کا عزم؛ اورمحافظین کو لاحق خطرات، ان کے کام میں حائل رکاوٹوں اور ان پر تشدد کرنے والے مجرموں کو سزا سے حاصل استثنیٰ جیسے مسائل سے نبٹنے کے لیے سوچ بچار کے موضوعات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ نشستوں کی صدارت نسرین اظہر، ظفر اللہ خان، طاہرہ عبداللہ، نصیر میمن اور ڈاکٹر فرزانہ باری نے کی۔

7جنوری 2014ءکو ملتان میں قتل ہونے والے ایچ آر سی پی کے کوآرڈینیٹر راشد رحمان کی برسی کے موقع پر ”انسانی حقوق کے محافظین کے نسبتاً بہتر تحفظ کی جانب پیش قدمی“ کے عنوان سے مشاورت کا اہتمام کیا گیا جو درج ذیل مطالبات کی منظوری کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔
ہم، ایچ آر سی پی کی اہتمام کردہ مشاورت، ”انسانی حقوق کے محافظین کے نسبتاً بہتر تحفظ کی جانب پیش قدمی“ کے شرکاءمطالبہ کرتے ہیں کہ انسانی حقوق کے محافظین کی سلامتی وتحفظ، ان کے کردار کے ادراک اور ان کی جدوجہد میں معاونت کے لیے درج ذیل اقدامات کئے جائیں۔

1۔    ریاست کو چاہئے کہ وہ انسانی حقوق کے محافظین کو لاحق خطرات اور سکیورٹی سے متعلقہ مشکلات کا ادراک کرے جوانہیں ملک کے مختلف حصوں میں ریاستی وغیر ریاستی عناصر کی جانب سے درپیش ہیں۔ ریاست کو انسانی حقوق کے محافظین کے تحفظ وسلامتی کو یقینی بنانے کے لیے اپنے آئینی وبین الاقوامی فریضے کی رُو سے سول سوسائٹی کی مشاورت سے بامعنی اقدامات کرنا ہوں گے۔

2۔    انسانی حقوق کے تمام محافظین کی زندگیوں اور کام کے تحفظ کے لیے موثر آئینی ڈھانچہ اور حفاظتی انتظامات تشکیل دیئے جائیں۔ اس مقصد کے لیے حکومت کو ”انسانی حقوق کے محافظین کے لیے اقوام متحدہ کے اعلامیہ“ (1998) اور اُن سفارشات سے رہنمائی لینی چاہئے جو حکومت نے دیگر ممالک سے لی تھی۔ حکومتِ پاکستان نے ان سفارشات کو 2012ءمیں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل (یو این ایچ سی آر) کے اجلاس میں اپنی یونیورسل سلسلہ وار نظرثانی(یو پی آر) کے دوران قبول کیا تھا۔
3۔    انسانی حقوق کے کارکنوں کے کام کی بدولت ان کے خلاف مقدمات کا اندراج خاص طور پر حالیہ مہینوں کے دوران گلگت۔بلتستان میں انسانی حقوق کے کارکنوں پر بغاوت کے الزامات پریشان کن پیش رفت ہے۔ اس قسم کے خوف وہراس اور تشدد نے محافظین کے کام کار کے ماحول کو مزیدپُرخطربنادیا ہے۔ انسانی حقوق کے محافظین کے خلاف ایسے مقدمات کے اندراج کا سلسلہ فوری طور پر بند ہونا چاہئے اور پہلے سے درج شدہ مقدمات خارج کئے جائیں۔

4۔    پاکستان کے آئین اور انسانی حقوق کے متعدد بین الاقوامی معاہدات کے تحت پاکستانی ریاست پر یہ فریضہ عائد ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں کے لیے شفاف قانونی کارروائی کے نفاذ کو یقینی بنائے۔استبدادی وغیرہ قانونی حراستوں، جبری گمشدگیوں اور انسانی حقوق کے محافظین کو درپیش دیگر خطرات اور حملوں کے واقعات کی مکمل، فوری اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائے۔

5۔    انسانی حقوق کے محافظین پر تشددکرنے والے تقریباً تمام مجرموں کو سزا سے استثنیٰ حاصل ہے چاہے ان کا تعلق ریاست سے ہو یا وہ غیر ریاستی عناصر ہوں۔ اس کے باعث محافظین کے خلاف خوف وہراس، تشدد اور تشدد کی دھمکیوں میں شدید اضافہ ہوا ہے۔ حکام کو چاہئے کہ وہ انسانی حقوق کے محافظین کو درپیش خطرات اور تشدد کا ترجیحی بنیادوں پر مقابلہ کریں، ایسے واقعات کی تحقیقات کریں اور ان میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی کریں۔ اس مقصد کے لیے اگر موثر عزم اور خلوص سے کام کیا جائے تو انسانی حقوق کے محافظین کو نشانہ بنائے جانے کے واقعات میں کمی آسکتی ہے۔
6۔    انسانی حقوق کے محافظین کو معلومات تک رسائی سے نہ روکا جائے اور انہیں ملک کے تمام حصوں میں آزادانہ نقل وحرکت اور ملک چھوڑنے اور ملک میں داخل ہونے سمیت اظہار رائے اور نقل وحرکت کی مکمل آزادی دی جائے۔ شفاف قانونی کارروائی کے بغیر استبدادی طریقہ کار سے ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں انسانی حقوق کے محافظین کے نام ڈالنے کا سلسلہ فوری طور پر بند کیا جائے۔

7۔    معلومات کی آزادی ایک بنیادی انسانی حق ہے جو نہ صرف انسانی حقوق کے کارکنوں کے لیے ضروری ہے بلکہ حکومت کو جوابدہ ٹھہرانے، شفافیت کو یقینی بنانے اور بیشتر حقوق کے حصول کے لیے اہمیت کی حامل ہے۔ معلومات اور خیالات کے حصول یا فراہمی میں حائل تمام پالیسیوں اور رجحانات کو ختم کیا جائے۔
8۔    اگرچہ سول سوسائٹی اظہار رائے کی آزادی کا تہہ دل سے احترام کرتی ہے اور اس پر مکمل یقین رکھتی ہے مگر سول سوسائٹی کا ذرائع ابلاغ کے پیشہ وارانہ اداروں سے مطالبہ ہے کہ وہ خود کو کنٹرول کرنے کا کوئی جامع نظام وضع کریں تاکہ ذرائع ابلاغ کو انسانی حقوق کے محافظین کے خلاف تشدد پر اکسانے اور نفرت پھیلانے کے لیے استعمال نہ کیا جاسکے اور نہ ہی ذرائع ابلاغ کے ذریعے سول سوسائٹی کی تنظیموں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو غیر اہم قرار دیا جائے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے انسانی حقوق کے محافظین اور سول سوسائٹی کے خلاف پھیلائے جانے والے پراپیگنڈے پر قابو پایا جائے۔

9۔    انسانی حقوق کے محافظین معاشرے میں جو اہم کردار ادا کرتے ہیں اس سے لوگوں کو آگاہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ عوام کو یہ بھی بتایا جائے کہ انسانی حقوق کے محافظین کے کام کا تحفظ اور ان کی معاونت کیوں ضروری ہے۔ پولیس اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو انسانی حقوق کے محافظین کے ساتھ پیش آنے اور ان کی مدد کرنے کے حوالے سے تربیت دی جائے۔ انہیں یہ بھی بتایا جائے کہ انسانی حقوق کے محافظین کی سلامتی کو خطرات کے وقت وہ ان کی کس طرح مدد کریں گے اور کس قسم کے ردعمل کا اظہار کریں گے۔
10۔    اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ سول سوسائٹی کی تنظیمیں متحد ہوکر موثر نگران کار کا کردار ادا کریں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی سلامتی سے متعلقہ ضروریات کو اجاگر کریں اور ان کے کام میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کا مطالبہ کریں۔ سول سوسائٹی کو متحد ہونے اور اپنے حلیفوں، حریفوں اور غیر جانبدار عناصر پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
11۔    ایک ایسے وقت میں جب ریاست انسانی حقوق کے محافظین کی زندگیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے اپنے بنیادی فریضے کی ادائیگی میں ناکام ہے، حکام کو چاہئے کہ وہ انسانی حقوق کے شہید محافظین کے اہل خانہ کی مدد کرنے کا اپنا اضافی فریضہ پورا کریں۔ سول سوسائٹی کی تنظیموں کو بھی متاثرہ خاندانوں کی معاونت اور انہیں اپنے انصاف کے حصول کے لیے اپنے مقدمات کی پیروی قابل بنانے کے لیے معاونتی طرائق کار تشکیل دینے چاہئیں۔

(زہرہ یوسف)
چیئر پرسن ایچ آرسی پی