لاہور
03فروری2015ء
پریس ریلیز
ایک دوسرے پر الزام تراشی کی بجائے دہشت گردی کے
خاتمے کے لئے ٹھوس منصوبہ بندی کی جائے

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے وفاقی وصوبائی حکومتوں، سکیورٹی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں سے کہا ہے کہ وہ شکارپور میں ہونے والی قتل وغارت گری کا الزام ایک دوسرے پر لگانے کی بجائے متفقہ لائحہ عمل تیار کریں اور عوام کی جانوں کو تحفظ دینے کے لئے اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھائیں۔
منگل کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کمیشن نے کہا کہ شکارپور کی امام بارگاہ پر ہولناک حملہ کے بعد وہاں کون گیا اور کون نہیں گیا، سے کہیں زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا معصوم لوگوں کے قاتلوں کو گرفتار کیا گیا، کیا انہیں قرار واقعی سزائیں دی جائیں گی اور کیا مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے کوئی اقدامات کئے جارہے ہیں یا نہیں؟ جب ہم یہ سب کچھ کرلیں تو پھر یہ سوال اٹھایا جانا مناسب ہوگا کہ کس نے علاقے کا دورہ کیا اور کون علاقے میں نہیں گیا۔
یہ خواہش کرنا کہ کاش شکار پور کا حادثہ نہ ہوا ہوتا، یا اس واقعہ کے خلاف مذمتی قراردادیں منظور کرنے سے نہ تو اس حادثے میں جاں بحق ہونے والوں کے خاندانوں کے دکھ اور درد میں کمی آئے گی اور نہ ہی مستقبل میں دہشت گردی کے مزید واقعات کو روکا جاسکے گا۔
یہ کہنا بجا کہ ایسے حادثات میں شدید زخمی ہونے والوں کو بہتر طبی سہولتیں مہیا کرنے کے لئے انہیں بڑے ہسپتالوں تک پہنچانے کے لئے طیارہ کی سہولت دی جائے، لیکن وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو یہ مطالبہ بے معنی لگتا ہے۔ بہتر حکمت عملی اور اس پر عملدرآمد کے ذریعے ایسے حملوں کو روکنا زیادہ ضروری ہے اس کے مقابلے میں زخمیوں کو محض ہسپتالوں میں فوری طور پر منتقل کرنے کا عمل اتنا اہم نہیں۔ ایسے مجرموں کو قابو کرنے میں ہونے والی مسلسل ناکامی نے لوگوں کی تکالیف میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ لوگ توقع کرتے ہیں کہ سرکاری حکام ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنے کی بجائے ان مجرموں کا پیچھا کرکے ان کا خاتمہ کریں گے۔
عام لوگوں کے جذبات بڑے واضح ہیں۔ عام لوگ دہشت گردی کے تمام مظاہر کے خلاف ہیں اور وہ اس کا اظہار بار بار کرتے چلے آرہے ہیں اور لوگ ایسے تمام اقدامات کی کُھل کر حمایت کرتے ہیں جو دہشت گردوں کے خلاف اٹھائے جاتے ہیں۔ اس حمایت کو کیسے استعمال کیا جاتا ہے، یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب لوگ مانگتے ہیں۔ لوگ تو چاہتے ہیں کہ ایک عزم کے ساتھ ان مجرموں کا پیچھا کیا جائے۔ اگرچہ ہر ایسے واقعہ کے بعد محض خطابت پر زور دیا جاتا ہے۔ لیکن کبھی کئے گئے وعدوں پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگوں کو بتایا جائے کہ دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کا کیا ہوا؟ اور کیا اس پر عملدرآمد کرنے کے لئے کچھ کیا بھی گیا ہے یا نہیں۔شکار پور کا یہ ہولناک حادثہ دراصل پولیس، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور سکیورٹی فورسز کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس واقعہ پر سیاسی فائدہ اٹھانا اور قربانی کے بکرے تلاش کرنے کی کوششوں سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ فوری طور پر ضروری یہ ہے کہ اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے مشترکہ لائحہ عمل تیار کیا جائے اور اس پر عملدرآمد کے لئے ٹائم فریم بنایا جائے۔

(زہرہ یوسف)
چیئر پرسن ایچ آرسی پی