پریس ریلیز
لاہور
30اگست، 2016

عالمی کمیشن برائے ماہرین قانون (آئی سی جے) اور پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے جبری گمشدگی کے متاثرین کے عالمی دن پر ایک کانفرنس منعقد کی جس میں بنگلہ دیش، ہندوستان، نیپال، پاکستان اور سری لنکا سے وکلاء اور کارکنوں نے شرکت کی جن کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیاء میں وسیع پیمانے پر ہونے والی جبری گمشدگیوں پر صرف اس صورت میں قابو پایا جاسکتا ہے کہ خطے کی حکومتیں انسانی حقوق کی اس سنگین خلاف ورزی کو فوری طور پر جرم قرار دیں۔

جنوبی ایشیا دنیا کے ان خطوں میں شامل ہے جہاں جبری گمشدگی کے مبینہ متاثرین کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ سری لنکا، نیپال، پاکستان اور ہندوستان میں ایسے ہزاروں واقعات قلمبند کئے گئے ہیں اور بنگلہ دیش میں 2009سے جبری گمشدگی کے واقعات میں شدت آئی ہے۔
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کے سیکرٹری جنرل آئی اے رحمان نے کہا کہ ’’سری لنکا کی جانب سے جبری گمشدگی کے میثاق کی توثیق اور اس عمل کو جرم قرار دینے کا عہد خوش آئند امر ہے۔ خطے کی دیگر ریاستوں کو اس اقدام کی پیروی کرنی چاہئے اور ملکی قانون میں جبری گمشدگی کو خاص جرم قرار دے کر انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے اپنی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے‘‘۔
بین الاقوامی قانون کے تحت، اگر ریاستی اہلکاروں کی طرف سے ریاست کی اجازت، حمایت یا خاموش رضا مندی سے کارروائی کرنے والے افراد کی طرف سے کسی کو گرفتار، اغواء یا حراست میں لیا جاتا ہے اور بعدازاں حراست سے انکار سے کیا جاتا ہے یا ’’گمشدہ‘‘ فرد کی حالت یا مقام کو چھپایا جاتا ہے جس کے سبب وہ فرد قانون کے تحفظ کے دائرہ کار سے باہر چلا جاتا ہے، تو یہ کارروائی جبری گمشدگی کے زمرے میں آتی ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے جبری گمشدگی کو متعدد بار ’’انسانی وقار کے خلاف جرم‘‘ قرار دیا ہے۔
اس وقت جنوبی ایشیاء کی کسی بھی ریاست میں جبری گمشدگی کو ایک اور باقاعاعدہ جرم تصور نہیں کیا جاتا جوکہ مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے میں ایک بنیادی رکاوٹ ہے۔

جبری گمشدگی پر قانونی ڈھانچے کی عدم موجودگی میں، قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی طرف سے غیر تسلیم شدہ حراستوں کو محض ’’گمشدہ افراد‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب مبینہ مجرموں کے خلاف فوجداری شکایات درج ہوتی ہیں تو شکایت دہندگان کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ جرم کو ’’اغواء‘‘ کے زمرے میں ڈالیں۔
اغواء یا اس جیسے دیگر جرائم جبری گمشدگی کی پیچیدگی اور بالخصوص اس کی سنگینی کا احاطہ نہیں کرتے اور اکثر اوقات جرم کی شدت کے مطابق سزائیں تجویز نہیں کرتے۔ یہ ’’گمشدہ‘‘ افراد کے رشتے داروں اور جبری گمشدگی کے نتیجے میں متاثر ہونے والے دیگر افراد کو متاثرین کے طور پر بھی تسلیم نہیں کرتے جیسا کہ بین الاقوامی قانون تقاضہ کرتا ہے۔

آئی سی جے ایشیا کے ڈائریکٹر سام ظریفی کا کہنا ہے کہ :’’جنوبی ایشیا میں جبری گمشدگیوں کے ہزاروں واقعات کے باوجود حکومتیں اپنی اس قانونی ذمہ داری کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہیں کہ وہ ان جرائم کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کے طور پر دیکھیں‘‘۔ جنوبی ایشیائی حکومتوں نے جبری گمشدگی کے متاثرین کو معاونت فراہم کرنے یا ان کے خاندانوں کے سچائی، انصاف اور تلافی کے حق کو یقینی بنانے کے لیے خاطرخواہ اقدامات نہیں کیے۔
جنوبی ایشیائی ممالک میں ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے میں حائل دیگر رکاوٹیں بھی آپس میں مماثلت رکھتی ہیں: فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو گرفتاری اور حراست سمیت وسیع اور ناقابل جواب دہی اختیارات حاصل ہیں؛ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو وسیع قانونی استثنا اور قانونی کارروائی سے تحفظ حاصل ہے؛ اور فوجی عدالتوں کو فوج کے اہلکاروں کی جانب سے سرزد ہونے والے جرائم کی سماعت کا اختیار حاصل ہے، ان واقعات میں بھی جہاں ان جرائم کا تعلق انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے ہو۔
متاثرین کے گروہ، وکلاء، اور جبری گمشدگیوں پر کام کرنے والے کارکنوں کو بھی سکیورٹی خطرات بشمول حملوں، ہراساں کیے جانے، کڑی نگرانی، اور دھمکیوں کا سامنا رہتا ہے۔
آئی سی جے اور ایچ آر سی پی کا کہنا ہے کہ علاقے میں جبری گمشدگیوں کے حوالے سے سزاسے استثنا کے خاتمے کے لیے قانون اور پالیسی میں جامع اصلاحات کی ضرورت ہے۔ جبری گمشدگی کو الگ اور واضح جرم قرار دینا اس جانب پہلا قدم ہوگا۔
اضافی معلومات
پاکستان میں جبری گمشدگی حالیہ سالوں میں ایک ملک گیر مسئلہ بن چکا ہے۔ اگرچہ ایسے واقعات زیادہ تر بلوچستان ، وفاق اور صوبوں کے زیرانتظام قبائلی علاقوں اور خیبرپختونخوا میں سامنے آئے ہیں تاہم اب سندھ میں بھی ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں۔اب تک کسی ایک بھی مجرم کو قانون کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا۔
نیپال میں مسلح تنازعے کے خاتمے کے دس سال بعد بھی جبری گمشدگی کے ایک ہزار سے زائد ممکنہ متاثرین کا کچھ اتا پتا نہیں اور مجرموں کو ابھی تک انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا۔
ہندوستان میں 1989ء اور 2009ء کے درمیان صرف کشمیر میں جبری اور غیرارادی گمشدگیوں کے 8,000سے زائد واقعات منظرعام پر آئے۔ہندوستان کے شمال مشرق بالخصوص منی پور میں بھی بہت سے واقعات سامنے آئے ہیں۔ آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ (ایفسپا)کے علاوہ دیگر قوانین کے تحت فراہم کردہ استثنا نے مشتبہ مجرموں کے خلاف قانونی کارروائی کو تقریباً نا ممکن بنا دیا ہے۔
2009ء سے بنگلا دیش میں بھی جبری گمشدگیوں میں اضافہ ہوا ہے اور حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے درجنوں سیاسی کارکنان، انسانی حقوق کے محافظین، طلباء اور صحافیوں کی گمشدگی کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔
سری لنکا دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں کئی دہائیوں تک جاری رہنے والے مسلح تنازعے کے نتیجے میں جبری گمشدگی کے سب سے زیادہ واقعات پیش آئے ہیں۔ 2015ء میں سری لنکا تمام افرادکو جبری گمشدگی سے تحفظ فراہم کرنے کے عالمی میثاق کی توثیق کرنے والا پہلا جنوبی ایشیائی ملک بنا۔