پریس ریلیز
لاہور
03  اکتوبر،   2016

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے سول سوسائٹی کی تنظیموں کو دھمکانے اور اس بات کو افسوس ناک قراردیا ہے کہ سولین حکومت نے

اہم معاملات کو اپنے ہاتھ سے نکل جانے کی اجازت دی ہے جس سے ملک کے جمہوری مستقبل کے لیے شدید مشکلات پیدا ہوں گی۔
ایچ آر سی پی کی ایگزیکٹیو کونسل نے ملک میں انسانی حقوق کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے کراچی میں ایک اجلاس منعقد کیا اور پیر کو جاری ہونے والے ایک بیان میں مندرجہ ذیل خدشات کا اظہار کیا۔ کمیشن نے کہا:’’ ایچ آر سی پی فیصلہ سازی کے اہم پہلوؤں کو فوج کے سپرد کرنے اور سولین

حکومت کی جانب سے فوجی اسٹیبلشمنٹ کو گنجائش فراہم کیے جانے پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرنا چاہتا ہے۔
یہ امر تشویش ناک ہے کہ یہ سب اس وقت ہو رہا ہے جب پاکستان اور ہندوستان کے درمیان فوجی طاقت کے استعمال کا خدشہ ہے۔ دونو ں اطراف سے جنگ جوئی کی حمایت افسوس ناک ہے اور یہ سلسلہ فوراً بند ہونا چاہئے۔ امن کی ضرورت پر جتنا زوردیا جائے کم ہے۔ ایچ آر سی پی میڈیا سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ جنگ کا طبل بجانے کی بجائے امن قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کشمیرکے دیرینہ تنازعے کو علاقے کے لوگوں

کی خواہشات کے مطابق حل کرنے کی ضرورت سے توجہ ہٹانے کا باعث بن رہی ہے۔
انٹیلی جنس اور سکیورٹی ایجنسیوں کے اہلکاروں کے سول سوسائٹی تنظیموں کے دفاتر کے دوروں اور دیگر چالوں کے ذریعے ایچ آر سی پی،سول سوسائٹی کی دیگر تنظیموں اور تعلیمی اداروں کو ہراساں کرنے کی منظم کوششوں کے باعث خوف اور دہشت کا ماحول پیدا ہوگیا ہے۔ تاہم ہم ان قابل مذمت حربوں سے خوف زدہ نہیں ہوں گے اور انسانی حقوق کے احترام کا مطالبہ جاری رکھیں گے اور خلاف ورزیوں کی نشاندہی کرتے رہیں گے۔ بہتر ہوگا کہ ایجنسیاں سول

سوسائٹی کی تنظیموں اور انسانی حقوق کے محافظین کو ہراساں کرنے کی بجائے اپنی توانائیاں شہریوں کی سلامتی اور تحفظ پر صرف کریں۔
ایچ آر سی پی کو شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کے معاملے پر سامنے آنے والے خدشات پربھی شدید تشویش لاحق ہے۔ شہریوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کی متعدد اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ خاص طور پر ایسی پامالیاں جن کا تعلق بے دخل شہریوں کا اپنے علاقوں میں واپسی کے معاملے سے ہے۔ ان کی گھر واپسی کے عمل کو جس غیر حساس طریقے سے نبٹایا جارہا ہے، اس سے عوام کی ناامیدی اور غم وغصے کو تقویت پہنچی ہے۔ ان معاملات کی تحقیقات کرنے اور چیزوں کو ان کی درست سمت میں واپس لانے کی ضرورت ہے۔ ’’فاٹا اصلاحات شہریوں کا دیرینہ مطالبہ ہے۔ تاہم، یہ افسوس ناک امر ہے کہ ان اصلاحات پر غور کرنے والی کمیٹی میں نہ تو فاٹا کی اور نہ ہی خواتین کی نمائندگی ہے۔’ رواج‘ کو فوقیت دینے اور جرگہ کو بااختیار کرنے کی کوششیں قانون کی حکمرانی اور حقوق کے تحفظ کے لیے نیک شگون نہیں ہیں۔ ایچ آر سی پی ہر اس کوشش کی شدید مذمت کرتا ہے جس میں ملک کے شہریوں کی

علاقائی شناخت کی بنیاد پر ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہو‘‘۔
گلگت۔ بلتستان کا دورہ کرنے والے ایچ آر سی پی کے مشن نے مشاہدہ کیا کہ وہاں پر جابرانہ فیصلے کئے جارہے تھے اور کارکنوں وصحافیوں کو ہراساں کیا جارہا تھا۔ انسداد دہشت گردی قوانین کا وسیع پیمانے پر ناجائز استعمال بھی کیا جارہا تھا۔ لوگ اس بات پر انتہائی مایوس تھے کہ ان کے اس مطالبے کو پورا نہیں کیا جارہا کہ گلگت۔بلتستان کو آئینی ترامیم کے ذریعے پاکستان کا حصہ تسلیم کیا جائے یا ایک خاص رتبے کا حامل علاقہ قرار دیا جائے۔ ’’مذکورہ بالا معاملات فوری توجہ طلب ہیں۔ ہم پرامید ہیں کہ حکومت ان معاملات کے ازالے کی سنجیدہ کوشش کے حوالے سے مزید وقت ضائع نہیں کرے گی‘‘۔

(زہرا یوسف)
چیئر پرسن ایچ آرسی پی