لاہور
16دسمبر2014ء
پریس ریلیز

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے پشاور میں فوج کے زیر انتظام چلنے والے سکول پر طالبان کے حملے میں 120 سے زیادہ بچوں کے قتل کو قومی سانحہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس قومی المیہ سے ان لوگوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں جو اب بھی سمجھتے ہیں کہ طالبان اور پاکستان ایک ساتھ موجود رہ سکتے ہیں۔

منگل کے روز جاری ہونے والے بیان میں کمیشن نے کہا کہ ایچ آر سی پی کو پشاور کے آرمی پبلک سکول پر طالبان کے حملے میں عظیم جانی نقصان پر شدید صدمہ پہنچا ہے۔ یہ قومی المیہ ہے، جس پر پوری قوم کو شدید دُکھ ہوا ہے۔ آج کا دن پاکستان میں ماتم کا دن ہے۔ تمام پاکستانی دہشت گردی کے اس مکروہ عمل سے بے حد دُکھی ہوئے ہیں اور ان کے دل شہید ہونے والے بچوں کے والدین کی طرح ہی دُکھی ہیں۔

اگرچہ دہشت گردی کا ہدف فوج کے زیر انتظام چلنے والا سکول تھا لیکن یہ تو ایک سکول تھا۔ بچے طالبان کے خلاف نہیں لڑ رہے۔ اس کے باوجود اس مکروہ عمل کے ہدف کا چنا¶ اور بھاری تعداد میں بچوں کی ہلاکتوں سے پتہ چلتا ہے کہ ان بدنما چہروں والے طالبان کا مقصد زیادہ سے زیادہ بچوں کو قتل کرنا تھا۔

مذہب سمیت مسلح تصادم کے قواعد بچوں کو نشانہ بنانے کا کوئی جواز فراہم نہیں کرتے لیکن یہ کوئی راز نہیں رہا کہ قاتل اور انہیں سکول پر حملہ کرنے کے لیے بھیجنے والوں کے دلوں میں نہ تو مذہب کا احترام ہے اور نہ ہی وہ مہذب رویہ رکھنے والے لوگ ہیں۔ ان کے لیے بچوں کو نشانہ بنانا اس لیے معمول کی بات ہے کہ ان کا مقصد صرف اور صرف خون بہانا ہے۔
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق اپنے اس یقین کا اعادہ کرتا ہے کہ طالبان اور پاکستان ایک ساتھ نہیں رہ سکتے اور جو کوئی اب بھی اس کے برعکس تصور کرتا ہے اس کو نادان ہی کہا جا سکتا ہے۔ یہ حقیقت آج کے انتہائی تکلیف دہ واقعہ سے بہت پہلے ہی ثابت ہو چکی ہے کہ علم کے حصول اور بچوں کی زندگیوں کے حوالے سے طالبان کی سوچ کیا ہے۔ ان کے آج کے بدترین عمل نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ جب تک طالبان کو مکمل طور پر شکست نہیں دے دی جاتی“ پاکستان میں اس وقت تک امن قائم نہیں ہو سکتا۔

بچوں کے اس سفاکانہ قتل نے ایک بار پھر واضح کردیا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ کا مطلب کیا ہے اور اگر اس دل دوز سانحہ سے بھی ان لوگوں کی آنکھیں نہیں کھلتیںاور جو اب بھی طالبان کے بارے میں نرم لفظوں کا استعمال کرتے ہیں تو اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ لوگ اپنی گردنیں ریت میں دبائے ہوئے ہیں اور جو اب بھی دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کرنے سے باز رہنے کی تلقین کرتے نہیں تھکتے۔

ایچ آر سی پی وفاقی اور تمام صوبائی حکومتوں سے کہتی ہے کہ وہ یکجا ہوکر، متحدہوکر اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے سخت ترین اقدامات کریں اور انہیں یہ کام ترجیحی بنیادوں پر کرنا چاہئے۔ خیبرپختونخوا حکومت کو عسکریت پسندوں کے لئے اپنی دوستانہ پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہئے اور وہ اپنے عمل کے ذریعے شہریوں کو دہشت گردوں کے ظلم سے نجات دلائے۔ کمیشن نے کہا کہ ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ طالبان کے خلاف جنگ درحقیقت پاکستانی بچوں کی زندگیوں کے لئے جنگ ہے، بربریت کرنے والے بدنما طالبان سے بچوں کے مستقبل کو تحفظ دینے کی جنگ ہے۔

(زہرہ یوسف)
چیئر پرسن ایچ آرسی پی