پریس ریلیز
لاہور
28– مئی 2014

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے لاہور میں ایک خاتون کے قتل پر شدید تشویش کا اظہار کیاہے، جسے اس کے اہل خانہ نے پسند کی شادی کرنے پر لاہور ہائی کورٹ کے قریب اینٹیں مارمار کر ہلاک کردیا تھا۔

بدھ کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کمیشن نے کہا کہ منگل کے روز لاہور ہائی کورٹ سے چند گز کے فاصلے پر فرزانہ پروین کو جس طریقے سے قتل کیا گیا اس پر ایچ آر سی پی کو سخت دھچکا پہنچا ہے۔ اس کا جرم محض اتنا تھا کہ اس نے اپنی مرضی سے شادی کی تھی۔ قانون یہ حق تمام بالغ شہریوں کو فراہم کرتا ہے لیکن ایک ایسے معاشرے میں نہیں، جہاں ریاست اس کی خلاف ورزی کو روکنے میں ناکام رہتی ہے۔

پروین کو اس کے تقریباً بیس رشتہ داروں نے قتل کیا جن میں اس کا باپ اور بھائی بھی شامل تھے جنہوں نے اس پر اور اس کے خاوند پر اینٹوں اور ڈنڈوں سے حملہ کیا۔ جائے وقوعہ کے قریب اور ہائی کورٹ میں موجودہ لوگوں اور پولیس اہلکاروں میں سے کسی نے بھی مداخلت نہ کی۔

مذکورہ خاتون اس مقدمے میں اپنا بیان ریکارڈ کروانے کے لئے عدالت آئی تھی جواس کے خلاف خاندان کی مرضی کے خلاف شادی کرنے پر دائر کیا گیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق پروین کے اہل خانہ نے 12مئی کو ہونے والی سماعت کے دوران اسے اور اس کے خاوند کو بھی دھمکیاں دی تھیں۔
پروین کا قتل فوری اشتعال کے نتیجے میں پیش آنے والا واقعہ نہیں ہے کیونکہ اس کی شادی کو کئی ماہ گزر چکے تھے۔ اس کا خاندان واضح طور پر اسے قتل کرنے کے ارادے سے آیا تھا۔ پروین کے والد نے جب خود کو پولیس کے حوالے کیا تو وہ اپنے کئے پر شرمندہ نہیں تھا اور اس نے بہیمانہ قتل کو ”عزت کے نام پر قتل“ قرار دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اسے اپنے کئے پر افسوس نہیں ہے۔

شہریوں کی زندگیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے فریضہ کی ادائیگی میں حکام کی ناکامی کے باعث ایسے ظالمانہ اقدامات کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ نام نہاد ”غیرت کے نام پر قتل“ کا نشانہ بننے والی خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد ان کی زندگیوں کو محفوظ کرنے میں کسی بھی قسم کی دلچسپی کے بارے میں پائے جانے والے مغالطوں کو دور کرنے کے لیے کافی ہے۔ صرف 2013ءمیں، ایچ آر سی پی نے ذرائع ابلاغ کی رپورٹس سے ”غیرت کے نام پر“ 900خواتین کے قتل کے واقعات قلمبند کئے تھے۔ ان خواتین کے قتل کی وجہ یہ تھی کہ ریاست نے اس جاگیردارانہ رواج کا مقابلہ نہیں کیا جسے مذہبیت اور تعصب کی حمایت حاصل تھی۔

ایچ آر سی پی کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ اس شرمناک جرم کی بھرپور مذمت کرے اور اس امر کو یقینی بنائے کہ پروین کے قاتل اپنے بزدلانہ اقدام کو عزت کے نام پر قابل ستائش قرار دے کر انصاف کے کٹہرے سے بچ نہ جائیں۔ حکومت کو اس جرم کے پیچھے پائی جانے والی جاگیردارانہ ذہنیت کا مقابلہ کرنے کے لیے عوامی آگاہی کی مہم شروع کرنے کے بارے میں بھی غوروفکر کرنا چاہئے اور اس چیز کو یقینی بنانا چاہئے کہ قاتل عزت کے بے جا تصورات کا سہارا لے کر سزا سے نہ بچ جائیں۔

(زہرہ یوسف)
چیئر پرسن ایچ آرسی پی