پریس ریلیز
لاہور
20 دسمبر 2013

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے جبری گمشدگیوں سے متعلق مجوزہ قانون سازی کے حوالے سے ذرائع ابلاغ کی اطلاعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
جمعہ کے روز جاری ہونے والے ایک بیان میں ایچ آر سی پی نے کہا، یہ افسوس ناک امر ہے کہ انسانی حقوق کے انتہائی اہم معاملے سے متعلق جلد ہی متعارف ہونے والی متنازعہ قانون سازی کے بارے میں عوام کو ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے ذریعے معلوم ہورہا ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ عوام کو اس سے بے خبر کیوں رکھا جارہا ہے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ سول سوسائٹی اور متاثرہ افراد اور خاندانوں کی تجاویز لینے کے لیے وسیع ترمشاورتی عمل شروع کیا جاتا تاکہ پاکستان پر لگے جبری گمشدگیوں کے داغ کو مٹانا ممکن ہوجاتا۔
ذرائع ابلاغ سے جاری ہونے والی اطلاعات سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ مسودہ قانون کا مقصد افراد کی غیر قانونی طویل حراست کو قانونی جواز بخشنا اور انسانی حقوق کی اس سنگین خلاف ورزی میں ملوث خفیہ ایجنسیوں اور سکیورٹی فورسز کو سزا سے مکمل استثنیٰ فراہم کرنا ہے۔مجوزہ قانون میں 12شفارشات درج ہیں جن میں سے ایک سفارش جبری گمشدگیوں کو فوجداری جرم قرار دیتی ہے۔ مجوزہ قانون مزید کہتا ہے ”سکیورٹی فورسز اور خفیہ ایجنسیوں کو مشتبہ افراد کی مکمل تفتیش کے لیے اضافی وقت درکار ہے باوجود اس امر کے کہ جبری گمشدگی ایک فوجداری جرم ہے“۔ اگرچہ سفارشات کا حتمی شکل اختیار کرلینے کے بارے میں علم نہیں، تاہم ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ مجوزہ قانون مشتبہ افراد کو 90دن سے بھی زائد مدت تک زیرحراست رکھنے کی اجازت دے گا۔
اس بل میں کہا گیا ہے کہ اگر سکیورٹی فورسز کسی غائب کئے گئے شخص کے خلاف ثبوت اور شہادت پیش کریں تو انہیں سزا سے مکمل استثنیٰ حاصل ہوگا۔ اضافی اور مطلوبہ حفاظتی اقدامات کے نام پر عوام کے لیے متعارف کرائے جانے والے ایسے اقدامات محض جبری غائب کئے جانے والے مسئلے کو مزید گھمبیر بناتے ہیں، باضابطہ قانونی کارروائی کی نفی کرتے ہیں اورتفتیشی طرائق کار کو بہتر بنانے کی بجائے بغیر کسی الزام کے حراست اور قید کے دوران تشدد کی ترغیب دیتے ہیں تاکہ جبری اعتراف جرم کروایا جاسکے ۔ ایسے قانون کی منظوری سے نہ صرف پاکستان جبری گمشدگیوں کی روک تھام میں ناکام رہے گا بلکہ اس سے لاپتہ افراد کے خاندانوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کی جدوجہد کو بھی نقصان پہنچے گا جنہوں نے ملک میں جبری غائب کرنے والے مجرموں کو سزا سے حاصل استثنیٰ کے خاتمے کے لیے ایک طویل جدوجہد کی ہے۔ ایچ آر سی پی یہ کہنے پر مجبور ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مجوزہ قانون متاثرہ شخص کی بجائے حقوق کی قابل مذمت خلاف ورزی کا ارتکاب کرنے والوں کی طرفداری کرتا ہے۔ اگر مجوزہ قانون کی منظوری دی گئی تو اس سے محض جبری غائب کرنے کے اقدام کو قانونی جواز ملے گا۔
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کا یہ ماننا ہے کہ پاکستان میں حالیہ سالوں میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا جس کی وجہ عدالتی امور میں خامیاں اور ناقص تفتیش ہے اور وہ طریقہ کار ہے جس کے ذریعے سکیورٹی ایجنسیاں کارروائیاں کرتی ہیں۔ ناقص فوجداری نظام انصاف اور پیشہ وارانہ تحقیقات کی کمی کا خمیازہ جبری گمشدگی کے متاثرہ افراد کو نہیں بھگتنا چاہئے۔ ”ایچ آر سی پی کے لیے یہ امر مایوس کن ہے کہ ماضی کی روش کو ترک کرنے اور جبری گمشدگیوں کی روک تھام کی بجائے اس قسم کی قانون سازی کے بارے میں سوچا گیا۔ دہشت گردی پر قابو پانا انتہائی اہم ہے لیکن قومی سلامتی کے نام پر شہریوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم نہیں کرنا چاہئے۔ ایچ آر سی پی قانون سازوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس قانونی مسودے کو مسترد کردیں اور اسے قانون بننے سے روکیں۔ ایچ آر سی پی ایک مرتبہ پھر حکومت کو یاد دلاتا ہے کہ تمام قیدی جو ریاستی تحویل میں ہوں، کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے اور انہیںوہ تمام حقوق باہم میسر کئے جائیں جن کی آئین یقین دہانی کراتا ہے۔ ایچ آر سی پی اس بات سے متفق ہے کہ جبری گمشدگی کے مرض سے نبٹنے کے لیے قانونی ذرائع ضروری ہیں مگر ان ذرائع کا مقصد جبری گمشدگیوں کے مجرمان کو رعایتیں فراہم کرنے کی بجائے انہیں سزا سے حاصل استثنیٰ کا خاتمہ اور گمشدگیوں کی روک تھام ہونا چاہئے۔

(زہرہ یوسف)
چیئر پرسن ایچ آرسی پی