لاہور
26مئی 2015ء
پریس ریلیز

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے ڈسکہ میں پولیس فائرنگ سے دو وکلاءکی ہلاکت پر گہرے دُکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی صورت حال میں پولیس کی طرف سے اختیار کئے جانے والے طریق کار اور رویے کو تبدیل کرنا ضروری ہے تاکہ عوام کو یقین دلایا جاسکے کہ طاقت کے استعمال کا مقصد لوگوں کو مارنے کی بجائے ان کی زندگیوں کو تحفظ دینا ہے۔

منگل کو جاری ہونے والے بیان میں کمیشن نے کہا کہ ”پیر کے روز ڈسکہ میں پولیس کے ہاتھوں دو وکلاءکی ہلاکت نے پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کو پریشان کن صورتحال سے دوچار کردیا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق تحصیل ڈسکہ کی میونسپل انتظامیہ ( ٹی ایم اے) کے دفتر کے باہر وکلاءنے ٹی ایم اے کے عملہ کے چند افراد پر حملہ کردیا جس پر عملہ نے اپنی حفاظت کے لیے پولیس کو طلب کرلیا۔ پولیس کی مداخلت کا جواز کچھ بھی ہو، پولیس کی طرف سے طاقت کے بے محابہ استعمال کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔

حکومت نے واقعہ کی تحقیقات کروانے کا حکم دیا ہے۔ تحقیقات سے ہی معلوم ہوگا کہ طاقت کا جو استعمال کیا گیا اس کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ بہرحال یہ پہلی بار نہیں ہے کہ ریاست کی جابرانہ طاقت کو صوبے میں پولیس کے ذریعے لوگوں کو قتل کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے ذرا ذرا سی بات پر پولیس کی طرف سے بندوق چلانا ایک رسم بنتی جارہی ہے۔ ڈسکہ کا واقعہ متقاضی ہے کہ اس بات پر تفصیل کے ساتھ غوروخوض کیا جائے کہ قتل کے ایسے واقعات ہماری زندگی کا معمول کیوں بنتے جارہے ہیں اور انہیں کیسے روکا جاسکتا ہے۔ محکمہ پولیس کی طرف سے ایسے واقعات کا ہونا کیا ظاہر کرتا ہے۔ اس بات کو جاننے کے لیے ضروری ہے کہ مختلف سماجی طبقات سے اس بارے میں رائے لی جائے، ان سے مشورہ کیا جائے تاکہ اس مسئلہ کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کی طرف قدم اٹھایا جاسکے“۔

”دو وکلاءکے قتل میں ملوث پولیس افسر کی گرفتاری اور فائرنگ میں ملوث دوسرے ملزموں کی گرفتاری اور ان کے خلاف درج کئے جانے والے مقدمات سے ثابت ہونا چاہئے کہ تحقیقات شفاف طریقے سے ہوئی ہے اور اس واقعہ کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا بھی ملنی چاہئے۔ ان المناک واقعات کا ایک اور تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ متعدد شہروں میں وکلاءنے متشددانہ مظاہرے کئے۔ اگرچہ شہریوں کا یہ حق ہے کہ وہ جان سکیں کہ حکومت نے المناک اموات کے بعد صورتحال پر قابو پانے کے لئے زیادہ موثر کردار کیوں ادا نہیں کیا“۔
”ایچ آر سی پی وکلاءسے بھی درخواست کرتا ہے کہ وہ معاشرے کا باعزت اور بے حد باشعور طبقہ ہونے کے باعث اپنی صفوں کو منظم رکھیں اور اپنے احتجاجوں میں تشدد کے عنصر کو داخل ہونے سے روکیں تاکہ سرکار اور عوام کی ملکیتوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے اس لئے کہ یہ نقصان اجتماعی نقصان ہوتا ہے۔ تشدد کا راستہ اختیار کرنے سے وہ عوام کی ہمدردی کھو بیٹھیں گے۔ اس کے علاوہ ایک غلط مثال قائم کریں گے اس لئے کہ ہمارا سماج پہلے ہی کافی حد تک تشدد کا نشانہ بن چکا ہے“۔

(زہرہ یوسف)
چیئر پرسن ایچ آرسی پی