لاہور
04 جون 2015ء
پریس ریلیز

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے موجودہ سال کے دوران پاکستان میں پھانسیوں کی تعداد میں اضافے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سال کے دوران 135مجرموں کو تختہ دار پر لٹکایا گیا اور گزشتہ دس برسوں کے دوران کسی ایک سال میں دی جانے والی پھانسیوں کی یہ تعداد سب سے زیادہ ہے۔ کمیشن نے پھانسیوں کو روکنے اور سزائے موت کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایک بیان میں کمیشن نے کہا کہ پھانسی کی سزاﺅں کے آغازِ نو کے علاوہ جس رفتار کے ساتھ ان سزاﺅں پر عملدرآمد کیا جارہا ہے، وہ انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے رضا کاروں کے لئے باعث تشویش ہے۔ ریاست نے 2007ءکے بارہ مہینوں کے دوران 134افراد کو پھانسیاں دی تھیں جبکہ 2015ءکے صرف پانچ ماہ کے عرصے میں یہ تعداد اس سے زیادہ ہوچکی ہے۔ اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ یہ تعداد اتنے کم عرصے میں 2007ءکے پورے سال میں دی جانے والی پھانسیوں کی تعداد سے بھی تجاوز کرچکی ہے اور ابھی سال کے سات ماہ باقی ہیں۔ پشاور میں بچوں کے سکول پر ہونے والی بہیمانہ دہشت گردی کے نتیجے میں حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ غیر معمولی حالات میں ضرورت پڑنے پر استثنائی اقدام کے طور پر دہشت گردوں کو پھانسی دے گی۔ تاہم چند ہفتوں کے اندر اندر تقریباً چھ سالہ غیر رسمی عارضی معطلی ختم ہوگئی اور موت کی سزا والے تمام جرائم میں پھانسیوں کا آغاز کردیا گیا۔
پھانسی کی سزائیں پانے والے درجنوں افراد کو پھانسی دے دی گئی۔ دسمبر 2014ءمیں سات افراد کو پھانسی پر لٹکایا گیا۔ جنوری2015ءمیں 13پھانسیاں ہوئیں جبکہ فروری میں چار مجرموں کو پھانسی دی گئی۔ مارچ میں یہ تعداد 42، اپریل میں 36 اور مئی میں 37تک پہنچ گئی۔ اگر اسی رفتار سے پھانسیاں دی جاتی رہیں تو پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہونے لگے گا جو لوگوں کو پھانسیاں دینے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق یہ خواہش کرنے میں حق بجانب ہے کہ موت کی سزا نہیں دی جانی چاہئے اور پھانسی کی سزاﺅں کی غیر رسمی عارضی معطلی کے چھ برسوں کے دوران کے حالات میں کوئی ایسی تبدیلی نہیں آئی جو اس معطلی کو ختم کرنے کا سبب بنے۔ قانون میں موجود تحریری نقائص اور قانونی سقم سے بھرپورضابطہءفوجداری کا نظام پہلے ہی کی طرح ایک خطرہ ہے جس کے سبب ظالمانہ اور غیر منصفانہ سزاﺅں کی تلوار سروں پر لٹکتی رہتی ہے۔ اصل میں موجودہ حالات نے ملزم کو مزید مشکلات سے دوچار کردیا ہے اس لئے کہ وہ اپنے حقوق کے حصول کا صحیح راستہ اختیار نہیں کرسکتا خصوصاً ایسے مفروضے کی موجودگی میں کہ جب تک کوئی شخص مجرم ثابت نہ ہو، وہ بے گناہ ہے۔ تحقیق نے پوری دنیا پر یہ ثابت کردیا ہے کہ موت کی سزاﺅں سے جرائم میں کمی واقع نہیں ہوتی۔ جب سے پھانسیوں کا عمل دوبارہ شروع ہوا ہے اس سے پاکستان کی سکیورٹی کی صورت حال بہتر نہیں ہوئی اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پھانسی کی سزائیں جرائم میں کمی کا سبب نہیں بنتیں۔
اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ کسی سبب سے فوری طور پر پھانسی کی سزاﺅں پر عملدرآمد فوری طور پر نہیں روکا جاسکتا تو پھر کمیشن تجویز کرتا ہے کہ انتہائی خطرناک جرائم کے مرتکب مجرموں کے سوا باقی مجرموں کی پھانسی کی سزاﺅں پر عملدرآمد روک دیا جائے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ ملک میں موت کی سزا کے مکمل خاتمے کے لئے کام جاری رکھے اور اس کا آغاز موت کی سزا والے جرائم کو کم کرنے سے کرے۔

(زہرہ یوسف)
چیئر پرسن ایچ آرسی پی