لاہور
23 ستمبر2013

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے پشاور میں گرجا گھر پر حملے کو غیر انسانی فعل قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حملہ ان اقدار پر حملہ ہے جن کے تحفظ کے لیے پاکستان قائم ہوا تھا اور اسلامی اصولوں کی نفی کی کی عکاسی کرتا ہے۔ کمیشن نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ملک بھر میں عقیدے کے باعث شہریوں پر شدت پسندوں کے حملوں پر قابو پانے کی حکمت عملی بارے لوگوں کو آگاہ کیا جائے۔

پیر کے روز جاری ہونے والے ایک بیان میں ایچ آر سی پی نے کہا: ایچ آر سی پی کو پشاور میں گرجا گھر پر حملے پر شدید تشویش لاحق ہے۔ ہم متاثرہ خاندانوں اور کمیونٹی کے غم میں برابر کے شریک ہیں اور کم از کم 80 قیمتی جانوں کے ضیاع اور دیگر افراد کے زخمی ہونے پر تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔ مسیحی شہریوں کی غارت گری جناح کے پاکستان کی اقدار پر حملے کے مترادف ہے۔ اسلام کے اصولوں کی تضحیک ہے اور اپنے شہریوں خصوصاً مذہبی اقلیتوں اور اُن کی مذہبی آزادیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے فریضے کی ادائیگی میں ریاست کی ناکامی کی نشاندہی کرتی ہے۔ درحقیقت مذہبی اقلیتوں پر حملہ حیران کن اَمر نہیں ہے کیونکہ جب تک سابقہ ہلاکتوں کے منصوبہ ساز اور اُن کے انسانیت سے عاری آلہ کاروں کو سزا سے استثنیٰ حاصل رہے گا، قتل و غارت اور مظالم انگیز کارروائیاں ہمارے لیے حیرانگی کا باعث نہیں ہونی چاہئیں۔ قاتلوں کا پاگل پن کسی حکمت عملی سے عاری نہیں ہے۔ جس کسی نے بھی پشاور گرجا گھر کی طرف خود کش بمبار روانہ کیے تھے اُس کا مقصد محض مسیحی شہریوں کو قتل کرنا نہیں تھا۔ اس واردات کا مقصد بظاہر ریاست کو غیر مستحکم کرنا تھا۔ حملے سے ایک واضح پیغام ملتا ہے۔ ریاست بھی اس حملے پر اس سے کم واضح ردّعمل ظاہر کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ حکام کی جانب سے محض سکیورٹی سخت کر دینا مناسب ردّعمل نہیں ہے۔ وزیر اعظم کی جانب سے مذہبی عقیدے کی بنا پر قتل کرنے والوں کو پاکستان کا دشمن قرار دینا، وزیر داخلہ کا فوری طور پر پشاور کا دورہ کرنا اور تین روزہ قومی سوگ منانے کا اعلان لائق تحسین اقدامات ہیں۔ مگر یہ امر شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ یہ ہفتہ کو ہونے والے حملے کے ردّعمل کے طور پر ہونے والی کارروائی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ شہریوں کو قتل و غارت سے بچانے کے لیے ٹھوس پیشگی اقدامات کہیں نظر نہیں آ رہے۔ اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات پاکستان کو درپیش دیگر مسائل پر قابو پانے میں کیسے مددگار ثابت ہوں گے۔ مثال کے طور پر ملکی سطح پر شدت پسند جنگجو¶ں کی تحریکوں میں شامل دیگر عناصر پر قابو میں کس حد تک مددگار ثابت ہوں گے۔ پشاور اور اِس جیسے دیگر سابقہ حملے کسی شدید مرض کی علامت ہیں اور یہ امر تشویش کا باعث ہے کہ انتہا پسند جنگجو¶ں کے حملے جاری ہیں جبکہ نئی حکومت نے ابھی تک مذہب کے نام پر شدت پسندی کے مسئلے سے نبٹنے کے حوالے سے مصیبت زدہ لوگوں کو اپنی حکمت عملی سے آگاہ نہیں کیا۔ ایچ آر سی پی کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ اس وبا سے نبٹنے کا اپنا منصوبہ واضح کرے اور پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کو یقین دہانی کروانے کے لیے بامعنی اقدامات اٹھائے کہ اُن کی زندگیوں اور مذہبی آزادی کو تحفظ فراہم کرنا حکومت کی ترجیح ہے اور وہ ایسا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔

(زہرہ یوسف)
چیئر پرسن ایچ آرسی پی