انتخابات کے سال میں انسانی حقوق کو بھلا دیا گیا۔ ایچ آرسی پی کی سالانہ رپورٹ کا اجراء

اسلام آباد، 15 اپریل 2019۔ اپنی انتہائی اہم سالانہ رپورٹ’ 2018 میں انسانی حقوق کی صورتحال ‘کے اجراء پر، پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آرسی پی) نے کہا ہے کہ ‘ عام انتخابات کے سال میں اگر انسانی حقوق کے معاملات پرپیش رفت اوران کے تحفظ کو مکمل طورپرپس پشت نہیں بھی ڈالا گیا تو ان سے توجہ ضرور ہٹائی گئی۔ انتخابات بذات خود قبل از انتخاب ہونے والی ساز باز اور ووٹوں کی دھاندلی جیسے الزامات، جن کا مکمل ازالہ نہیں کیا گیا، اورتشدد کے بعض خوفناک واقعات، کی لپیٹ میں رہے۔ اس کے باوجود، عام نشستوں پرخواتین امیدواروں کی تعداد پچھلے انتخاب سے زیادہ تھی اورملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ خواجہ سراء امیدواروں نے انتخابات میں حصہ لیا۔

آج جاری ہونے والے ایک بیان میں ایچ آرسی پی نے کہا ہے کہ اظہاررائے کی آزادی کے بنیادی حق کی جس طرح کھلم کھلا پامالی کی گئی، خاص طورپرپولنگ سے پہلے کے دنوں میں اس کی نظیرنہیں ملتی، اورمزید یہ کہ ”قومی سلامتی کے خدشات” کے نام پرذرائع ابلاغ کی کوریج پرپابندیاں لگائی گئیں، صحافیوں نے بڑی حد تک سیلف سنسرشپ اختیارکی، ایک قومی اخبارکی ترسیل بہت زيادہ گھٹادی گئی اورذرائع ابلاغ میں بعض واقعات کی کوریج پرمکمل پابندی عائد کی گئی۔

‘2018 کا آغاز چھ سالہ بچی زینب کے ساتھ خوفناک جرم سے ہوا، اورجس جلدی سے مجرم کو سزا دی گئی اس کی بنیادی وجہ عوام کا غم و غصہ تھا۔تاہم،  مجرم کو دی جانے والی سزا جرائم کی راہ میں حائل نہ ہوسکی اوربچوں کے ساتھ بدسلوکی اورتشدد کی اطلاعات مسلسل ملتی رہیں۔

جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل، بچوں کے ساتھ زیادتی اوران کا قتل، عورتوں پرتشدد، بچوں سے مشقت، مذہبی عدم رواداری، اقلیتوں کے ساتھ ظلم، ” عزت” کے نام پرجرائم کی اطلاعات نے عوام کے ضمیرکو ہلا کررکھ دیا ۔

‘عورتیں، بچے اورمزدوربہت زیادہ غیرمحفوظ رہے۔ ایچ آرسی پی نے جو کوائف مرتب کیے ہیں ان کے مطابق، عورتوں پرجنسی تشدد کے 845 واقعات پیش آئے اورمردوں اورعورتوں دونوں کو’ عزت’ کے نام پر 316   جرائم کا نشانہ بنایا۔ 2018 میں، تھر، سندھ میں 638 بچے  غذائیت کی کم کے باعث ہلاک ہوئے۔

‘بلوچستان اوردیگرصوبوں میں کئی کان کن جان لیوا حادثات میں اپنی زندگی سے گئے جبکہ جائے روزگارپر حفاظت اورصحت کے معیارات کے نفاذ پرکوئی پیش رفت نظرنہیں آئی۔ اس کے علاوہ، اطلاعات کے مطابق، اندازاً ، ایک کروڑ، 20 لاکھ بچوں سے مشقت کروائی جارہی ہے۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ اندازاً 16,136 آئی ڈی پیز خاندان ابھی تک اپنے علاقے میں واپس نہیں گئے۔ یہ تعداد زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔

واحد مثبت پیش رفت سپریم کورٹ سے عاصیہ بی بی کی رہائی تھی، مگرعدالتی فیصلے کے خلاف پھوٹنے والے تشدد کو صرف اس وقت ہی دبایا جاسکا جب ‘ معاہدہ’ طے پایا تھا۔

‘ ایگزٹ کنٹرول لسٹ( ای سی ایل) کا حد سے زیادہ اورمن مانا استعمال خبروں کی زینت بنتا رہا۔ ریلیوں کو روکنے یا ان میں خلل ڈالنےکے لیے، خاص طورپرانتخابات سے پہلے کے دنوں میں، کارکنوں کو پہلے سے حراست میں لیا جاتا رہا۔

‘ عدالت عظمیٰ کی مداخلتوں کو بہت زیادہ توجہ ملتی رہی، مگرفوجداری نظام انصاف میں اصلاح کے دیرینہ معاملے سے چشم پوشی جاری رہی اورتمام عدالتوں میں جمع ہونے والے مقدمات کی تعداد قابو سے باہرتھی۔ سال کے اختتام تک، 250 سے زائد نچلی، خصوصی اور اعلٰی عدالتوں میں 1.9ملین (19 لاکھ) مقدمات زیرالتوا تھے۔ سال کے اختتام پر، 4,688   قیدی سزائے موت کے منتظرتھے اور2014 کے بعد سے اب تک کم ازکم 500 کو پھانسی لگادی گئی تھی جن میں سے 14 کو 2018 میں پھانسی دی گئی۔

‘ خاص طورپر، سال کے دوران جو سرگرمیاں زیادہ نمایاں تھیں اوربڑے پیمانے پررپورٹ ہوتی رہیں وہ قومی احتساب بیوروکی تھیں جس کے کام کرنے کے طریقہ کارکو تعریف اورتنقید کے ملے جلے ردعمل کا سامنا رہا۔ خاص نشانہ بننے والوں میں سابق وزرائے اعظم، سیاستدان، ذرائع ابلاغ سے وابستہ لوگ، سی ای اوز اورجامعات کے اہلکارشامل تھے۔

‘ فروری 2018 میں وفات پاجانے والی نڈر، صاف گوعاصمہ جہانگیرکی جتنی اس وقت ضرورت محسوس کی گئی اتنی پہلے کبھی نہیں محسوس  کی گئی۔ ان کی المناک موت نے ملک کو ایک ایسی بہادرآواز سے محروم کردیا ہے جو پسے ہوؤوں، نمائندگی سے محروم اورغیرمحفوظ طبقوں کی حمایت میں بولنے کے لیے ہمہ وقت تیاررہتی تھیں۔’

ڈاکٹر مہدی حسن

چیئرپرسن