پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے ملک بھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر فوری توجہ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ کمیشن نے بالخصوص مذہبی اور فرقہ وارانہ اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد، دور افتادہ علاقوں میں ریاست کی موثر رٹ کی غیر موجودگی، خراب نظم وضبط، جبری گمشدگیوں کی روک تھام میں ناکامی جہاں سندھ میں ان کی تعداد اب بلوچستان کے برابر ہوگئی ہے، گمشدہ افراد کی لاشوں کا برآمد ہوناصحافیوں اور انسانی حقوق کا دفاع کرنے والوں پر حملے اور قابل ذکر تعداد میں داخلی نقل مکانی کی طرف توجہ دلائی ہے۔

اتوار کے روز سالانہ جنرل باڈی کے اجلاس کے اختتام پر ایچ آر سی پی نے کہا: ”کمیشن اس بات کی داد دے سکتا ہے کہ حکام کے پاس ان خلاف ورزیوں کی ایک طویل فہرست موجود ہے جن سے اسے نبرد آزما ہونا ہے لیکن یہ یک سمتی، رسمی اور ان خلاف ورزیوں جنہوں نے بہت سے لوگوں کی حالت کو پہلے سے بھی زیادہ بدتر بنادیا ہے کے حوالہ سے محض جوابی ردعمل ہے۔ اکثریتی آبادی کے عقیدہ سے تعلق نہ رکھنے والوں کے ساتھ عدم رواداری کا سلسلہ بلا روک ٹوک بڑھتا چلا جارہا ہے جس کا اندازہ ان کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد سے لگایا جاسکتا ہے۔ پاکستان کی مذہبی ومسلکی اقلیتوںکی تشویش ناقابل بیان ہے۔ مذہب کے نام پر بلوائی تشدد کو فروغ مل رہا ہے۔ ایچ آر سی پی کا مطالبہ ہے کہ پیشگی تنبیہ کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہئے اور بروقت بامعنی اقدام کرنا چاہئے۔ لاہور میں مسیحی برادری کی جوزف کالونی پر حملے، جس نے قوم کا سرشرم سے جھکا دیا تھا، کو بھلایا جاچکا ہے۔ اس امر کی یقین دہانی کے لیے کچھ بھی نہیں کیا گیا کہ بلوچستان اور گلگت بلتستان میں ہزارہ شیعوں کے قتل عام پر قابو پالیا جائے گا۔ اپنے عقیدے کے باعث احمدیوں پر نشان زد حملوں کا سلسلہ جاری ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مقتولین اوراس کے اہل خانہ کو حکام کی ہمدردیاں حاصل نہیں ہیں۔ مزید برآں احمدی وہ واحد گروہ ہے جسے جداگانہ انتخابی فہرستوں میں شامل کیا گیا ہے۔ مذہبی اقلیتوں اور مسالک کی عبادت گاہوں پر حملے معمول بن چکے ہیں۔ ملک بھر میں تعلیمی مراکز کے نام پر قائم ہونے والے اداروں سے منافرت کی تبلیغ کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔ مخصوص مسلکی گروہوں کو ہتھیاروں کی تقسیم کی اطلاعات بھی منظر عام پر آئی ہیں۔مذہب کی ذاتی اور پسندیدہ تشریحات اور سنگین قاتلوں کی من مانیاں پاکستان میں زندگی اور موت کا پیمانہ ہیں۔

لوگوں کا خیال ہے کہ اگر فتنہ انگیزوں کو ریاستی مشینری میں موجود بعض عناصر کی مدد حاصل نہ ہوتی یا مجموعی طور پر ریاست غیر موثر سازی کا مظاہرہ نہ کرتی تو حالات اتنی سنگین صورت اختیار نہ کرتے۔ مذہب کے نام پر تشدد کی تبلیغ بارے قانون متعارف کروانے کی فوری ضرورت ہے۔ملک کے بیشتر حصوں بشمول فاٹا، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں لاقانونیت اب ایک عام رواج ہے۔ یہ تصور کرنا ہی محال ہے کہ ریاستی معاملات اتنے بدتربھی ہوسکتے ہیں کہ کراچی میں کوئی حکومتی مشینری نظر ہی نہ آئے۔ ہر روزقتل ہونے والوں کی تعداد کم سے کم ایک درجن ہے۔ گزشتہ کچھ ماہ کے دوران پشاور سے بوری بند لاشیں ملتی رہی ہیں۔

دہشت گردوں کے بڑے گروہوں نے سرکاری تنصیبات پر حملے جاری رکھے جیسا کہ پشاور اور بنوں میں دیکھنے کو ملا۔ کشیدگی کے باعث ہونے والی بے دخلی/نقل مکانی جاری رہی۔ بے دخلی کی بنیادی وجہ کو بھی معلوم نہیں کیا گیا۔ خیبرایجنسی کی تحصیل باڑہ میں ایک سال سے زائدعرصہ تک کرفیو نافذ رہا۔ لوگوں کی حالت زار کو ہرحوالے سے بری طرح سے نظر انداز کیا گیا۔ آج تقریباً فاٹا میں مسلح تصادم کی وجہ سے دس لاکھ کے قریب لوگ اندرونی طور پر بے دخل ہیں۔ عدلیہ خود کو تمام ریاستی امور میں شراکت دار بناتی ہے جبکہ یہ اس کا اپنا ہی حلقہ اختیار ہے جوکہ سب سے زیادہ نظر انداز شدہ اور پیجھے ہے۔ سپریم کورٹ ان درخواستوں پر کوئی فیصلہ نہیں دے پارہی جوکہ جبری گمشدگی کے متعلق ہیں اور جس کی سماعت پہلی دفعہ 2007میں شروع ہوئی۔ سال 2012میں سندھ میں گمشدہ افراد کی تعداد بلوچستان میں گمشدہ ہونے والے افراد کے تقریباً برابر ہے۔ 2012میں 72افراد کی لاشیں جنکی گمشدہ ہونے کی اطلاعات دی گئی تھیں،ویران مقامات سے ملیں۔ انسانی حقوق کو نقصان پہنچانے والے قوانین متعارف کروانے کے نئے جذبے نے انسانی حقوق کے بین الاقوامی معاہدات اور ملکی قوانین کے نفاذ میں ناکامی کو مزید سنگین کردیا ہے۔قاتلوں کو سزا سے مکمل استثنیٰ حاصل رہا۔ کراچی میں صحافی بابرولی کا قتل، قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے میں ریاستی اداروں کی ناکامی کی واضح مثال ہے۔ مقدمے کے چھ گواہوں کو قتل کردیا گیا ہے۔ آج کی ابتر صورتحال میں ہر معروف صحافی کی زندگی خطرے کی زد میں ہے جس طرح کہ ہر معروف شیعہ کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے۔ سیاسی کارکنوں اور سیاستدانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور وہ غیر محفوظ ماحول میں انتخابی مہموں میں مشغول ہیں۔ ان خوفناک حالات میں لوگ پراعتماد ہوکر ووٹ ڈالنے کے لیے باہر کیسے نکلیں گے۔ تشدد کا خدشہ بھی موجود ہے۔

لوگوں کے معاشی خدشات صرف لوگوں تک ہی محدود رہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وہ خدشات مقتدر حلقوں کے لیے بھی قابل توجہ نہیں۔انسانی حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لیے کام کرنے والوں کے لیے خطرات میں نمایاں اضافہ ہوا۔ بہت سے صحافیوں اور انسانی حقوق کے محافظوں کو مخصوص حملوں میں قتل کیا جاتا رہا۔ دیگر بہت سوں کو دھمکیوں اور دباﺅ کا سامنا کرنا پڑا۔ سال 2012میںپاکستان صحافیوں کے لیے ایک خطرناک ترین ملک تھا۔ ملک بھر میں 14صحافیوں کا قتل ہوا۔ صحافیوں کو لاحق خطرات بلوچستان کے ضلع خضدار میں شدید ترین تھے جہاں صحافیوں کے رشتہ داروں کونشان زد حملوں میں قتل کیا گیا۔

خواتین اور اقلیتی برادریوں کی استعداد سے استفادہ حاصل کرنے سے یکسر انکار سے ان معاملات کو حل کرنے میں کوئی مدد نہیں ملی۔ ایچ آرسی پی اے جی ایم نے 2013کے عام انتخابات میں تورغر، بنوں، لکی مروت، میانوالی اور دوسرے علاقوں میںخواتین کو انتخاب لڑنے یا ووٹ ڈالنے سے روکنے کے لیے طے کردہ اقدامات کے متعلق ایک مرتبہ پھر سامنے آنے والی اطلاعات کے متعلق شدید تشویش کا اظہار کیا ۔ ایچ آر سی پی کا الیکشن کمیشن سے مطالبہ ہے کہ وہ ایسے غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات کی کھلے عام مذمت کرے اور ان کے خاتمے کے لیے موثر کارروائیاں کرے؛ ایسے حلقہ انتخاب کے نتائج کالعدم قرار دے جہاں خواتین کے ووٹ نسبتاً کم کاسٹ ہوں یا بالکل ہی کاسٹ نہ ہوں اور انتخابات کے دن ہی اس فیصلے کا اعلان کرے۔ ایچ آر سی پی تمام سیاسی جماعتوں ، ان کے حمایتیوں اور مذہبی قائدین پر زور دیتا ہے کہ وہ خواتین ووٹروں یاانتخابات میں حصہ لینے والی خواتین کو حق رائے دہی سے محروم کرنے والے ایسے تمام غیر جمہوری ہتھکنڈوں کی مذمت کریں، انہیں مسترد کریں اور ان سے لاتعلق رکھیں۔ یہ تباہ کن صورتحال میں ایک خطرناک آمیز ش ہے۔ ایچ آر سی پی مرکز اور صوبوں میں نگران حکومتوں کے محدود کردار سے آگاہ ہے اور توقع کرتا ہے کہ وہ اپنی حدود میں رہتے ہوئے زندگی، آزادی اور لوگوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں کی حقیقی رائے کی عکاسی کرنے والی نئی منتخب حکومت جلدازجلد ان مشکلات پر قابو پائے۔ یہ ضروری ہے کہ تبدیلی بندوق یا اخلاقیات کے پاسبانوں کے فتووں کی بجائے ووٹ کے ذریعے آئے۔ ایچ آر سی پی کا سیاسی جماعتوں سے بھی مطالبہ ہے کہ وہ اپنے منشوروں، انتخابی مہموں اور دیگر سرگرمیوں میں ان معاملات پر توجہ مبذول کریں۔ میڈیا اور سول سوسائٹی ایک مرتبہ پھر خودکو اکیلا محسوس کررہے ہیں۔ خطرات کے باوجود انہیں ان تمام خلاف ورزیوں کو اجاگر کرنا ہوگا اور ان لوگوں سے معاونت کی امید وابستہ رکھنا ہوگی جنہیں عوام اس مقصد کے لیے منتخب کریں گے کہ وہ انہیں اس دلدل سے باہر نکالیں۔

زہرہ یوسف چیئرپرسن،
ایچ آر سی پی جنرل باڈی