مشترکہ پریس ریلیز

ایشیائی ممالک سزائے موت کا خاتمہ اور زندگی کے حق کا احترام کریں

بنکاک، 10 اکتوبر2018 : ایشین فورم برائے انسانی حقوق و ترقی(فورم- ایشیا) اورایشیا میں سول سوسائٹی کی 28 تنظیموں نے سنگارپورحکام کی جانب سے حال ہی میں عبدالواحد بن اسماعیل، محسن بن نائم، اورزین الدین بن محمد کو دی جانے والی پھانسی پرشدید تشویش کا اظہارکیا ہے۔ تینوں کو منشیات سے متعلقہ جرائم پرسزائے موت سنائی گئی تھی اورانہیں 05 اکتوبر2018 کو پھانسی لگائی گئی۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے نیٹ ورک کی حیثیت سے، فورم- ایشیا سمجھتا ہے کہ سزائے موت زندگی کا حق جو کہ دیگرحقوق کے حصول کے لیے لازمی شرط ہے، کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ چنانچہ ہماراسنگاپورکو حکومت اورایشیا کی دیگرحکومتوں جنہوں نے اپنے ملکوں میں سزائے موت برقراررکھی ہوئی ہے، سے مطالبہ ہے کہ وہ موت کی سزا پرعارضی پابندی عائد کریں۔ یہ سزائے موت کے خاتمے کے طرف ان کا پہلا قدم ہو گا۔

حالیوں برسوں میں عالمی سطح پر سزائے موت میں کمی دیکھنے میں آئی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جرائم کی روک تھام کے لیے سزائے موت کی بجائے دیگرمئوثرطریقے اپنانے کی تحریک جاری ہے1۔ اس عالمی رجحان کے باوجود، ایشیا میں کئی حکومتوں نےسزائے موت کا استعمال جاری رکھا ہوا ہے۔ اسی سال، ہندوستان نے سزائے موت کے زمرے میں آنے والے جرائم کی وسعت میں اضافہ کردیا۔ بنگلادیش میں، موت کی سزا پانے والے افراد کی سالانہ تعداد میں کوئی کمی نہیں آئی۔ بنگلا دیش میں، منشیات سے متعلق جرائم کے لیے سزائے موت کے استعمال کے رجحان میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ انڈونیشیا میں، حالیہ برسوں میں خاص طور پر منشیات سمگلنگ کے مجرموں کو پھانسیاں دی جاتی رہی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق، چین میں ہر سال منشیات اور قتل کے سینکڑوں سے ہزاروں مجرموں کو پھانسیاں دی جاتی ہیں، اگرچہ صحیح اعدادوشمار حاصل کرنا مشکل ہے۔ سری لنکا کی کابینہ نے حال ہی میں صدرکی ایک تجویز منظور کرلی جس میں انہوں نے ان افراد کو سزائے موت دینے کے لیےاقدامات کرنے پر زور دیا تھا جنہیں منشیات سے متعلق جرائم میں سزا سنائی گئی تھی اور جو جیل میں رہتے ہوئے منشیات کے کاروبار چلا رہے تھے۔

حکومت نے پریشان کن خدشات کے باوجود سزائے موت کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ ایسے قابل یقین شواہد موجود نہیں ہیں جواس بات کی تائید کرتے ہوں کہ سزائے جرائم کو روکتی ہے۔ منگولیا میں، جب یہ معلوم ہوا کہ پھانسیاں دینے سے جرائم میں کوئی کمی نہیں آئی تو وہاں سزائے موت کو ختم کردیا گیا۔ (2) سزائے موت کے استعمال کے حق میں دلائل کسی ٹھوس سائنسی شواہد کی بجائے رائے عامہ پر مبنی ہیں۔ سزائے موت غیر متناسب طور پر ان لوگوں کو متاثر کرتی ہے جو عام طور پر غریب اور کمزور ترین افراد ہوتے ہیں، کیونکہ  وسائل اور طاقت تک ان کی رسائی محدود ہوتی ہے۔ پوری دنیا کے عدالتی نظام میں نا انصافی کا امکان موجود رہتا ہے۔ ویتنام میں، ہو ڈائے ہائی اور لی وان من کے مقدمات، جنہیں شواہد کی کمی اور پولیس کو حاصل سزا سے استثنا کے الزامات کے باوجودموت کی سزا سنائی گئی، عدالتی نظام کی ساکھ کے بارے میں شدید شبہات کو جنم دیتے ہیں۔ سزائے موت ناقابل واپسی ہوتی ہے. یہ زندگی کے حق اور ظالمانہ، غیر انسانی اور ذلت آمیز سلوک سے آزاد زندگی گزارنے کے حق، جو تمام انسانوں کا بنیادی حق ہے،  کی خلاف ورزی کا باعث بنتی ہے۔ یہ ہمارے سزایافتہ افراد کی بحالی کے فروغ سے متعلق اہداف اور عالمی انسانی حقوق کی ان اقدار اور معیارات کے بھی خلاف ہےجن کی ہم تائید کرتے ہیں۔

سزائے موت کے خلاف عالمی دن کے موقع پرہم ایشیا میں جاری سزائے موت کے قانون پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہیں۔ ہماری تمام حکومتوں سے یہ اپیل ہے کہ وہ سزائے موت کے خاتمے کے لیے کام کریں اور ایک ایسا نظام عدل قائم کریں جو مجرموں اور مظلوموں سمیت تمام انسانوں کے حقوق کا احترام کرے۔ ہم صرف حق زندگی اور اس کے وقار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہی عالمی انسانی معاشرے کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔

 (1بنگلار مانابادھیکر سُرکشا منچا (ماسوم)، انڈیا

2) بائیٹس فارآل۔ پاکستان

3) کمبوڈین ہیومن رائٹس اینڈ ڈیویلپمینٹ ایسوسی ایٹ (اے ڈی ایچ او سی) ، کمبوڈیا

4) Commission for the Disappeared and Victims of Violence – Komisi untuk Orang Hiland dan Korban Tindak Kekerasan (KontraS), Indonesia

5) کمیونٹی ریسورس سنٹر، تھائی لینڈ

6) کمیونٹی سیلف ریلائنس سنٹر (سی ایس آر سی)، نیپال

7) اکیوٹی میانمار، میانمار

8) پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق، پاکستان

9) ہیومن رائٹس الرٹ، انڈیا

10) انفارم، سری لنکا

11) لاء اینڈ سوسائٹی ٹرسٹ، سری لنکا

12) قومی (کیتھولک) کمیشن برائے امن و انصاف

13) مداری پور لیگل ایڈ ایسوسی ایشن

14) مالدیوین ڈیموکریسی نیٹ ورک، مالدیپ

15) قومی (کیتھولک) کمیشن برائے امن و انصاف، پاکستان

16) اودھیکار، بنگلادیش

17) پیپلز واچ، انڈیا

18) عوامی یکجہتی برائے شراکتی جمہوریت (پی ایس پی ڈی)، جنوبی کوریا

19) عوامی نگران کمیٹی برائے انسانی حقوق، انڈیا

20) فلپائنز الائنس آف ہیومن رائٹس ایڈووکیٹس (پی اے ایچ آر اے)، فلپائن

21) رفیوجی اینڈ مائیگریٹری موومنٹس ریسرچ یونٹ (آر ایم ایم آر یو)، یونیورسٹی آف ڈھاکہ، بنگلا دیش

22) جنوبی انڈیا سیل برائے تعلیمِ انسانی حقوق و نگرانی (ایس آئی سی ایچ آر ای ایم) ، انڈیا

23) سوارا رکیارملائشیا، ملائشیا

24) تائیوان ایسوسی برائے انسانی حقوق، تائیوان

25) ٹاسک فورس ڈٹینیز آف دی فللپائنز(ٹی ایف ڈی پی)، فلپائن

26) تھِنگ سنٹر، سنگاپور

27) ویتنامیز ویمن فار ہیومن رائٹس، ویتنام

28) Yayasan Lembaga Bantuan Hukum Indonesia/ Indonesia Legal Aid Foundation (YLBH), Indonesia