تعلیمی آزادی بہت بڑے خطرے سے دوچار ہے
کراچی/لاہور، ١٠جون۔ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی)کو ماہرین تعلیم کے خلاف چلنے والی مذموم مہم پر شدید تشویش ہے۔ اس سے قبل
شاہ عبدالطیف جامعہ خیرپور کے پروفیسر ساجد سومرو کو مذہب کی تضحیک اور بغاوت کے الزامات پر گرفتار کیا گیا ہے۔
حیدرآباد میں انسانی حقوق کی نامور کارکن، ڈاکٹر عرفانہ ملاح نے واقعے پر افسوس کا اظہار کیا تو اس کے فوری بعد اُنہیں بھی مُلاؤں اور سیاسی گروہوں کی زیرقیادت ایک بیہودہ مہم کا نشانہ بنایا گیا جس میں اُن پر تضحیک مذہب کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
پروفیسر سومرو اور ڈاکٹر ملاح نے اپنا اظہار رائے کا حق استعمال کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیا جس کا استعمال بطور شہری ان کا حق اور بطور استاد اُن کا فریضہ ہے۔ درحقیقت، آواز بلند کرنے کی جرات کرنے والوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے اُن پر بغاوت اور مذہب کی توہین کے مقدمات کا اندراج ایک خوفناک معمول بن چکا ہے۔ ہم یہ مت بھولیں کہ جنید حفیظ، مشال خان اور پروفیسر خالد حمید، یہ سب ایک ایسے غیرمنصفانہ، ظالمانہ نظام کی بھینٹ چڑھے ہیں جو اساتذہ اور طالبعلموں کی تعلیمی آزادیکو دبانے کے لیے وضع کیا گیا تھا۔
ایچ آر سی پی ایسی تمام کوششوں کی مذمت کرتا ہے جن کا مقصد من گھڑت وجوہ پر دانشوروں کو نشانہ بنا کر تعلیمی آزادی کا گلا گھونٹنا ہے۔ ریاست کو اپنے شہریوں کی سلامتی کو یقینی بنانا ہو گا اور آزاد آوازوں کو خاموش کرنے یا ذاتی جھگڑے نبٹانے کے لیے تضحیک مذہب اور بغاوت کے قوانین کے غلط استعمال کو روکنا ہو گا۔
چئیرپرسن ڈاکٹر مہدی حسن کے ایماء پر