تھرپارکر کی برادریاں اپنے حقوق کا تحفظ چاہتی ہیں
مِٹھی، 16 فروری۔ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کے زیرِ اہتمام ایک اجلاس میں تھرپارکر کے تمام شعبہ ہائے جات سے تعلق رکھنے والے کارکنان اور پیشہ ور ماہرین نے علاقے میں انسانی حقوق کے کئی مسائل کی نشاندہی کی جن میں پینے کے صاف پانی کا فقدان، مزید ملازمتوں کی ضرورت، ماؤں اور بچوں کو غذائیت بخش خوراک کی کمی، اور مذہب کی جبری تبدیلی شامل ہیں۔
ایچ آر سی پی کے رکن اور انسانی حقوق کے معروف کارکن کرشن شرما نے اجلاس کی نظامت کے فرائض انجام دیے۔ ایچ آر سی پی کے اعزازی ترجمان آئی اے رحمان، کونسل رکن حنا جیلانی، شریک چئیر عظمیٰ نورانی اور سیکریٹری جنرل حارث خلیق نے شرکاء کو یقین دلایا کہ ایچ آر سی پی وفاقی و صوبائی سطحوں پر فیصلہ ساز اداروں اور لوگوں تک اُن کے مسائل پہنچاتا رہے گا۔ ایچ آر سی پی برادریوں کے بتائے گئے مسائل پر فیکٹ فائنڈنگ مشن بھی بھیجے گا۔
ایک انتہائی پریشانی کا مسئلہ صاف پانی تک رسائی کا نہ ہونا ہے۔ ایک فرد نے کہا کہ واٹر اینڈ پاور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی(واپڈا) نے مختلف مقامات کو صاف پانی کا منصوبہ تو منظور کیا ہے مگر حکومت نے اُسے عملی جامہ نہیں پہنایا۔ شرکاء کا کہنا تھا کہ تھر کول اور ترقیاتی منصوبوں میں مقامی باشندوں کو اور ملازمتیں ملنی چاہییں، اور یہ کام کرتے ہوئے خیال رکھا جائے کہ کوئلے کے استعمال سے ماحول پرثرات کو کم کیا جا سکے۔ ایک شریک مَجلس کا الزام تھا کہ آر او پر پانی کی فراہمی پر مامور عملے کو چھ ماہ سے تنخواہ نہیں ملی۔ اس کے علاوہ، اُنہیں سرکار کی طرف سے معین کردہ کم از کم تنخواہ سے بھی کم تنخواہ دی جاتی ہے۔
کئی شرکاء کا خیال تھا کہ دوردراز بسنے والی مقامی برادریوں کو صحت کی سہولیات پر دسترس نہیں ہوتی کیونکہ وہ بکھرے ہوئے ہیں اور لوگ ہنگامی صورتحال میں قریب ترین ہسپتالوں تک نہیں پہنچ پاتے۔ غذا کی کمی بھی ثقافتی رکاوٹوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، جیسے کہ کم عمری کی شادی، پیدائش کے دوران مناسب وقفے کا نہ ہونا اور عورتوں کو مناسب خوراک کا نہ مل سکنا۔ خودکشی کی شرح، خاص کر عورتوں میں، علاقے میں ذہنی صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی کے ساتھ مُنسلک ہے۔
بھیل اور کولہی برادریوں کے نمائندوں نے کہا کہ وہ پریشان ہیں کہ بالائی ذات کے سیاسی رہنماء اُن کی مُوثر سیاسی نمائندگی نہیں کر رہے۔ اجلاس میں شریک عورتوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسی اقلیتی عورتوں کی گزر بسر کے لیے اُن کی امداد کا کوئی نظام وضع ہونا چاہیے جنہیں اسلام قبول کرنے اور مسلم مردوں سے شادی کرنے پر طلاق ہو جاتی ہے کیونکہ اُنہیں اکثر اپنی برادریوں کی طرف سے ہی ٹھکرا دیا جاتا ہے۔
چئیرپرسن ڈاکٹر مہدی حسن کے ایماء پر