لاہور
07  مارچ،  2016پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے کہا ہے کہ پاکستان کی پارلیمان میں آج کے جدیددور میں بھی خواتین کی کم نمائندگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں صنفی مساوات کو یقینی بنانے کے عہد کو پورا نہیں کیا جارہا ہے اور کمیشن نے حکومت اور تمام سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس

عدم توازن سے نبٹنے کی ذمہ داری کا ادراک کریں۔
خواتین کے عالمی دن (8مارچ) سے ایک دن قبل، اتوار کو جاری ہونے والے ایک بیان میں ایچ آر سی پی نے کہا کہ عدلیہ اور انتظامیہ کی نسبت قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کی نمائندگی کی شرح کسی حد تک بہتر ہے مگر ایسا خواتین کی مخصوص نشستوں کی بدولت ہے۔342اراکین پر مشتمل قومی اسمبلی میں صرف 70 قانون ساز خواتین ہیں۔ ان میں سے صرف نو خواتین عمومی نشستوں پر انتخاب لڑ کر رکن قومی اسمبلی بنیں۔ باقی تمام مخصوص نشستوں پر نامزد کی گئی تھیں۔ 100اراکین پر مشتمل سینٹ میں صرف 19خواتین شامل ہیں۔
کمیشن نے کہا کہ قانون سازی کے حوالے سے خواتین قانون سازوں نے پارلیمان میں اپنی تعداد سے کہیں بڑھ کر کردار ادا کیا ہے۔
قانون سازی میں خواتین اراکین کے قابل قدر کردار کے علاوہ پارلیمان میں ان کی موثر نمائندگی سے یہ پیغام بھی ملے گا کہ اگرچہ معاشرے میں وہ پسماندگی اور امتیازی سلوک کا شکار ہیں مگر مقننہ میں ان کے ساتھ امتیاز نہیں برتا جاتا۔
تاہم، بدقسمتی سے، پارلیمانی عہدوں پر خواتین کی موجودگی ان کی ایوان میں موجودگی سے بھی کم ہے۔ پارلیمانی سیکریٹریز میں سے تین خواتین جبکہ 17مرد ہیں۔ قومی اسمبلی کی 32قائمہ کمیٹیوں میں سے کسی بھی کمیٹی کی سربراہی کسی خاتون رکن کے پاس نہیں ہے۔ سینٹ میں صرف دو قائمہ کمیٹیوں کی قیادت خواتین اراکین کے پاس جبکہ 28کمیٹیوں کے چیئرپرسن مرد اراکین سینٹ ہیں۔
اگرچہ ہزاروں مردوں نے 2013ء کے انتخابات میں عام نشستوں پر انتخاب لڑا تاہم عام نشستوں پر انتخاب لڑنے والی خواتین کی تعداد صرف 135 تھی۔ ان میں سے 61 خواتین نے پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑا۔ یہ صورتحال محض اتفاق نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کی وضاحت کریں کہ انہوں نے پارلیمان میں صنفی مساوات کو یقینی بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کیوں نہیں کیا؟
کمیشن کا کہنا ہے کہ خواتین کوسماجی اور سیاسی زندگی اور سرکاری شعبوں میں شمولیت کے حوالے سے مسلسل امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ حکومت اور فیصلہ سازی میں خواتین کی کم نمائندگی کی وجوہات کے نہ صرف کئی پہلو ہیں بلکہ یہ پیچیدہ بھی ہیں، جن میں معاشی، سماجی اور ثقافتی مسائل کے علاوہ خواتین کے بارے میں پائے جانی والی رجعت پسندی اور متعین شدہ غیر مساویانہ صنفی کردار شامل ہیں۔
ایچ آر سی پی نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ سرکاری شعبے میں خواتین کی مکمل اور موثر نمائندگی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے خاتمے کے حوالے سے پاکستان پر عائد ذمہ داریوں کو پورا کرے اور خواتین کی برابری اور موثر نمائندگی کی جانب پیش قدمی کرے اور خاص طور پر اعلیٰ سرکاری عہدوں کے حصول میں حائل رکاوٹوں کو دور کرے۔(زہرہ یوسف)
چیئر پرسن ایچ آرسی پی