پریس ریلیز
لاہور
2018-14 مارچ
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) کے ایک حالیہ فیصلے کو باعثِ تشویش قرار دیا ہے جس میں عدالت نے مذہب کے اظہار کی لازمی شرط عائد کی ہے۔ کمیشن نے وفاقی حکومت سے اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
”ایچ آر سی پی کو آئی ایچ سی کے حال ہی میں سنائے گئے فیصلے پر نہایت تشویش ہے۔ عدالت نے اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ مسلح افواج، عدلیہ اور سول سروسز سمیت تمام سرکاری ونیم سرکاری محکموں میں ملازمت کے امیدواروں کے لیے اپنی مذہبی شناخت ظاہر کرنا لازمی ہے۔“ اس فیصلے سے تمام مذہبی اقلیتوں، خاص طور پر احمدیوں کے لیے نہایت سنگین مسائل پیدا ہوں گے۔ کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ، پاسپورٹ، پیدائشی سرٹیفکیٹ بنوانے اور ووٹوں کی فہرستوں میں اندراج کے لیے مذہبی شناخت ظاہر کرنے کی شرط عائد ہونے سے اقلیتوں کے بنیادی حقوق پر شدید منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ان شرائط سے اقلیتی برادریوں کے ساتھ اداروں کی سطح پر ہونے والی ریاستی بد سلوکی کو مزید تقویت ملے گی“۔ ایچ آر سی پی طویل عرصہ سے مذہبی اقلیتوں کے خلاف ریاست کے منظم امتیازی سلوک اور انتہا پسندوں کے حملوں کو قلمبند کر رہا ہے اور کمیشن کے خیال میں ریاست کا یہ فریضہ ہے کہ وہ لسانی، مذہبی اور علاقائی شناختوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے تمام شہریوں کو تحفظ فراہم کرے۔ ایچ آر سی پی کو خدشہ ہے کہ اس عدالتی آرڈر سے خاص طور پر احمدی برادری پر جبر اور تشدد میں اضافہ ہوجائے گا۔ ملک میں احمدی برادری کے تحفظ کو لاحق خطرات کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ اس آرڈر کے نتائج ان کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتے ہیں۔
ایچ آر سی پی نے کہا ہے کہ قابلِ احترام آئی ایچ سی جیسے انصاف کی فراہمی کے اداروں کو چاہیے کہ وہ معاشرے کے سب سے زیادہ غیر محفوظ طبقوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت کے لیے قابلِ قدر کردار ادا کریں۔ اس لیے فاضل عدالت کے آرڈر کے نتیجے میں اگر مذہبی اقلیتیں خود کو غیر محفوظ تصور کرتی ہیں تو یہ انتہائی افسوسناک بات ہے۔
ایچ آر سی پی کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ اس فیصلے کو کالعدم قرار دلوانے کے لیے اس کے خلاف اپیل دائر کرے۔
ایچ آر سی پی کا حکومت سے یہ بھی مطالبہ ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف فوری اور مﺅثر اپیل کرکے اپنے اقلیتی شہریوں کی مدد کے لیے آگے بڑھے۔

ڈاکٹر مہدی حسن
چیئر پرسن ایچ آرسی پی