لاہور
17ستمبر 2013

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے پاکستان میں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ منگل کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کمیشن نے کہا: ایچ ار سی پی نے حالیہ دنوں میں خواتین کے حلاف تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کا شدید تشویش کے ساتھ مشاہدہ کیا ہے۔ بدقسمتی سے ملک میں ایسے واقعات ہمیشہ سے معمول رہے ہیں لیکن ایسے واقعات کی اطلاعات نہ صرف دور دراز کے علاقوں بلکہ بڑے شہروں سے بھی موصول ہورہی ہیں۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران پنجاب سے جنسی تشدد کے متعدد واقعات کی اطلاعات بھی ہیں جس میں ایک پانچ سالہ بچی سے جنسی زیادتی کا وقوعہ بھی شامل ہے۔ اس مسئلے کی سنگینی کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ صرف لاہور میں پولیس نے رواں برس یکم جنوری سے 31اگست تک جنسی تشدد کے 113مقدمات درج کئے تھے۔ اسی عرصہ کے دوران پنجاب کے دارلحکومت کی پولیس نے اجتماعی جنسی تشدد کے 32مقدمات درج کئے۔ اس ہفتے کے اوائل میں کوہاٹ، خیبرپختونخواہ میں تین خواتین کو ان کے خاندان کے اراکین نے گولیاں مار کر ہلاک کردیا۔ ایچ آر سی پی کی جانب سے میڈیا مانیٹرنگ کے مطابق، اس سال جولائی کے اختتام تک کم از کم 44خواتین پر تیزاب پھینکا گیا جن میں سے سات زخموں کی تاب نہ لاکر ہلاک ہوگئیں۔ تقریباً 44خواتین کو آگ لگائی گئی جن میں سے 11ہلاک ہوئیں۔ اس سال جولائی کے اختتام تک تقریبا،451خواتین کو عزت کے نام پر قتل کیا گیا۔ 2012میں یہ تعداد 918تھی۔

مزید برآں ایچ آر سی پی کو اس امر پر بھی تشویش ہے کہ متاثرین کی مدد کرنے والوں یا مظالم کو اجاگر کرنے والوں کو لاحق خطرات میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ خواتین کے خلاف مظالم کی نشاندہی کرنے والے انسانی حقوق کے مدافعین خصوصی طور پر خطرے کی زد میں ہیں۔ ایچ آر سی پی کے ایک سٹاف ممبر کو دو ہفتے قبل صرف اس وجہ سے روپوش ہونا پڑا کہ اس نے ایک واقعہ اجاگر کیا تھا جس میں ایک آدمی نے اپنی رشتہ دار خاتون کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا جس پر ملزمان نے اسے قتل کرنے کی دھکمیاں دیں اور اس کا پیچھا کرنا شروع کردیا۔ محض جنس کی بنیاد پر آبادی کے ایک حصے کو تشدد کا نشانہ بنانا ناقابل قبول امر ہے اور شرمناک بات ہے کہ اس بھیانک عمل کے خاتمے کے لیے معاشرہ اپنی آواز بلند نہیں کررہا۔ خواتین کے خلاف تشدد اور مجرموں کو سزا سے حاصل استثنیٰ کے متعدد عوامل ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے ہم بطور معاشرہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں کہ ہمارے معاشرے کو خواتین کے خلاف تشدد کا سنگین مسئلہ درپیش ہے جس سے فوری نبٹنے کی ضرورت ہے۔ جوں جوں خواتین اپنی زندگیوں پر اثر انداز ہونے والے فیصلوں میں شراکت کی زیادہ کوشش کررہی ہیں، ان کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ معاشرے کی نامور شخصیات اور سیاسی رہنماﺅں نے ایسے تشدد کی موثر مذمت نہیں کی ہے۔ مجرموں کو سزا سے تحفظ دینے والے حالات نے بھی تشدد کے فروغ میں براہ راست کردار ادا کیا ہے۔

ایچ آر سی پی نے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خواتین کے خلاف تشدد اور مجرموں کوسزا سے استثنیٰ کے خاتمے کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں تاکہ آبادی کے نصف حصے کو انصاف کی فراہمی ممکن ہوسکے۔ ایچ آر سی پی پر امید ہے کہ ان اقدامات میں آگہی کی مہمیں بھی شامل ہوں گی اور یہ قوانین میں تبدیلیوں تک محدود نہیں رہیں گی جن پر بعدازاں عمل درآمد ہی نہیں کیا جاتا۔کمیشن یہ بھی امید کرتا ہے کہ کم ازکم انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کرنے والے صحافیوں اور انسانی حقوق کے محافظین کو کام کار کا محفوظ ماحول فراہم کرنے کے لیے چند بامعنی اقدامات اٹھائے جائیں گے۔

زہرہ یوسف
چیئر پرسن