داغ دار 2020 ہوا معاشی مسائل اور اختلاف رائے پر پابندیوں سے سال

انسانی حقوق کی صورت حال پر ایچ آر سی پی کی رپورٹ کا اجراء

لاہور، 3 مئی۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی اہم سالانہ رپورٹ 2020 میں انسانی حقوق کی صورتحال  کے اجراء کا مقصد ریاست او رحکومت دونوں کو جھنجوڑ کر انہیں اس خود اطمینانی سے باہر نکالنا ہے کہ ایک نیولبرل اور متعصب نظام پاکستان کے عوام کو وہ حقوق اور آزادیاں دے سکتا ہے جن کے وہ قانونی اور آئینی طورپر مستحق ہیں۔

کوویڈ 19 بحران کا انسانی حقوق کے نقطہ نظر سے جائزہ لیتے ہوئے، ایچ آر سی پی اس نتیجے پر پہنچا کہ وباء نے پہلے سے موجود ناہمواریوں میں اضافہ کر دیا ہے جس سے لاکھوں مزدور اپنے روزگار سے محرومی کے خطرے سے دوچار ہیں۔ بینظیر انکم اسپورٹ پروگرام اور احساس پروگراموں کو حکومت نے عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وباء سے نبٹنے کی حمکت عملی کا حصّہ بنایا۔ اس وجہ سے امید ہے کہ ہزاروں لوگ غربت کی پاتال سے بچ جائیں گے۔ مگر یہ پروگرام غریب دوست حکمت عملی کا محض ایک چھوٹا سا حصّہ ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ صحت کے حق کو دستور کے تحت بنیادی حق تسلیم کرے اور مستعدی، معیار اور رسائی کے شعبوں کے لیے مناسب وسائل مختص کرے۔

انتخابات ایکٹ 2017 اور اٹھارہویں آئینی ترمیم کی روح سے روگردانی کرتے ہوئے چاروں صوبوں میں مقامی حکومت کے انتخابات تاخیر کا شکار ہوءے۔ یہ انتہائی پریشان کن امر ہے۔ کوویڈ 19 جیسی صورتحال میں مؤثر مقامی حکومتوں کا وجود انتہائی ضروری ہے۔

وباء تعلیمی اداروں کے لیے بھی بہت بڑا دھچکا ثابت ہوئی۔ طالب علم آن لائن کلاسز لینے پر مجبور ہوئے اور بھروسے کے قابل انٹرنیٹ تک کم یا عدم رساءی کے باعث بلوچستان، خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع اور گلگت بلتستان میں ہزاروں طالب علموں کو نقصان اٹھانا پڑا۔

2020 میں انسانی حقوق کی صورت حال کا صحافت کی آزادی کے عالمی دن کے موقع پر جاری ہونا ریاست کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ اب یہ لگارتار تیسرا برس ہے کہ ایچ آر سی پی اپنی رپورٹ میں اظہار اور رائے کی آزادی پر بڑھتی قدغنوں کو اجاگر کر رہا رہے۔ سینئیر صحافی مطیع اللہ جان کے اغواء سے لے کر جنگ گروپ کے سربراہ شکیل الرحمٰن کی گرفتاری تک کی کارروائیوں سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ ذرائع ابلاغ کو سرکاری مؤقف کے آگے جھکنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ یہ امر بھی پریشانی کا سبب ہے کہ قومی احتساب بیورو شفاف سماعت اور باضابطہ قانونی کارروائی کے حق سمیت دیگر بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کے لیے بدستور ایک آلہ کار  کےطور پر استعمال ہو رہا ہے۔

پاکستان کی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد گنجائش سے بہت زيادہ رہی۔ جیلوں میں قید افراد کی  شرح 124 فیصد تھی۔ یہ تعداد 2019 کے مقابلے میں کچھ حد تک کم تھی مگر ملک کی جیلوں میں وباء کے حالیہ خطرے کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ریاست دیکھ بھال کے فریضے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ ایک خوش آئند پیش رفت یہ ہوئی کہ 2020 میں لگ بھگ 177 افراد کو سزائے  موت سنائی گئی۔ یہ تعداد 2019 کے مقابلے  میں بہت کم ہے جب 578 افراد کو موت کی سزا ہوئی اور کسی فرد کو تختہ دار پر لٹکانے کی اطلاع سامنے نہیں آئی۔

موجودہ حکومت کے 2018 سے عزم کے  مسلسل اظہار کے باوجود، جبری گمشدگیوں کو جرم قرار دینے کا بل طویل عرصہ سے قانون کا درجہ حاصل نہیں کر سکا ۔ اس کے باوجود کہ انکوائری کمیشن برائے جبری گمشدگیاں اس جرم میں ملوث عناصر کا قانونی کارروائی سے استثنیٰ ختم کرنے میں ناکام ثابت ہوا ہے، حکومت نے اس کے اختیارات میں تین سال کی مزید توسیع دے دی ہے۔

دریں اثناء، فرنٹئیر کور کے سپاہی کے ہاتھوں ایک غیرمسلح طالبعلم حیات بلوچ کے قتل سے لے کر چار سالہ برمش پر فائرنگ تک، اور ان الزامات سمیت کہ حملہ آوروں کو ‘ڈیتھ اسکواڈ’ کے ایک مقامی رہنماء نے بھیجا تھا، بلوچستان مقتدر حلقوں کی زیادتیوں کا خاص نشانہ بنا رہا۔

چئیرپرسن حنا جیلانی کے ایماء پر