‘سول اتھارٹی کی مدد کے لیے’ کے پی حکومت کا حکم نامہ تشویش کا باعث ہے
اسلام آباد، 18 ستمبر۔ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کو یہ جان کربہت تشویش ہوئی ہے کہ خیبرپختونخوا(کے پی) کی حکومت نے ایک حکم نامہ جاری کیا ہے جس نے مسلح افواج کے بعض ایسے اختیارات کو پورے تک توسیع دے دی ہے جو ہہلے’ سول انتظامیہ کی معاونت کے لیے’ 2011 ریگولیشنزکے تحت سابق فاٹا اورپاٹا تک محدود تھے۔
ایچ آرسی پی کو خدشہ ہے کہ اس حکم نامے کے ذریعے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو قانونی تحفظ مل سکتا ہے۔ سابق فاٹا اورپاٹا کو کے پی کا حصہ بنانے کا مقصد فاٹا کے رہائیشیوں کوبنیادی حقوق کی فراہمی اورانصاف تک رسائی دینا تھا جس سے وہ کئی دہائیوں سے محروم تھے۔ تاہم، اس کے بالکل برعکس، اس حکم نامے کی وجہ سے صوبے بھر کے شہریوں کے حقوق داؤ پرپرلگ سکتے ہیں۔
ایچ آرسی پی کی حالیہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ ریاست اورکے پی کے عوام کے درمیان اعتماد کا شدید فقدان ہے: جن مقامی کمیونٹیوں سے ایچ آرسی پی نے ملاقاتیں کیں وہ پہلے سے ہی اس بات پرفکرمند ہیں کہ پتہ نہیں قانون کا نفاذ اورانصاف تک رسائی کون سی شکل اختیارکرے گی۔ انہوں نے مسلح افواج کی موجودگی میں حالیہ انتخابات کے شفافیت پر خدشات کا اظہارکیا اوروہ خارقمرواقعے کی شفاف تحقیقات نہ ہونے پربھی ناخوش ہیں۔ نافذ کردہ حکم نامے سے ان خدشات کا مداوہ کسی بھی طرح نہیں ہوگا۔
کے پی میں امن و امان برقراررکھنے کی بنیادی ذمہ داری کے پی حکومت پرعائد ہے اوریہ ذمہ داری اس انداز سے کسی اورادارے کو منتقل نہیں ہونی چاہیے۔ ایچ آرسی پی کا کے پی کی حکومت سے پرزورمطالبہ ہے کہ وہ کے پی کے عوام کی امنگوں کا احترام کرے اورصوبے میں سویلین اداروں کی اتھارٹی اوراستعداد بڑھانے پرتوجہ دے۔
ایچ آرسی پی کے چئیرپرسن ڈاکٹرمہدی حسن کے ایماء پر