پارلیمنٹ کا کردار غیر مؤثر نہیں ہونا چاہیے
لاہور ، 6 اکتوبر : پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے اپنے ششماہی اجلاس کے اختتام پر درج ذیل بیان جاری کیا ہے:
‘ہمیں سیاسی اختلاف رائے کو دبانے کی حالیہ حکومتی کوششوں پر سخت تشویش ہے۔ اس بات کے پریشان کن اشارے موجود ہیں کہ پارلیمنٹ کا کردار کم ہوتا جا رہا ہے، جس کا ثبوت یہ ہے کہ حکومت آرڈیننس کے ذریعے نظام حکومت چلانے کی کوشش کررہی ہے۔ حال ہی میں نافذ کیا گیا خیبرپخونخوا ایکشنز (اِن ایڈ آف سول پاور) آرڈیننس 2019ء نہ صرف بعض بنیادی حقوق کے منافی ہے بلکہ یہ جمہوری اصولوں کے بھی خلاف ہے۔
‘حکومت کو سپریم کورٹ کے 2014ء کے مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ سے متعلق فیصلے پر عمل درآمد کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔ ہماری رپورٹس ظاہر کرتی ہیں کہ پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کو عقیدے پر مبنی تشدد اور توہین مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کا شکار ہو رہی ہیں۔
‘ایچ آر سی پی کے حالیہ فیکٹ فائنڈنگ مشن ظاہر کرتے ہیں کہ ریاستی عناصر جبری گمشدگیوں کو اب بھی جبر کے ذرائع کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ جبری گمشدگیوں کو جرم قرار دینے کے لیے قانون سازی کی اشد ضرورت ہے تاکہ مجرموں کو ایک منظم اور مؤثر طریقے سے جوابدہ ٹھہرایا جا جاسکے۔
‘بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں حالیہ اضافہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی بربریت کو ظاہر کرتا ہے۔ بچے غیرمحفوظ ترین گروہوں میں شامل ہیں، اور ریاست اور معاشرے دونوں کو ہی ان کے تحفظ کی ذمہ داری لینا ہوگی۔
‘ ہم ریاست کی جانب سے میڈیا ٹرائبیونلزکے قیام کے ذریعے اظہار رائے کی آزادی کو دبانے یا میڈیا کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی کوششوں کی سخت مذمت کرتے ہیں۔
‘ ہم ریاست پر زور دیتے ہیں کہ وہ گلگت – بلتستان کو صوبے کا درجہ دے اور یقینی بنائے کہ اس کے لوگوں کو ان تمام بنیادی حقوق تک رسائی حاصل ہو جو پاکستان کے دیگر شہریوں کو حاصل ہیں۔
‘ہمارے لیے یہ امر پریشان کن ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے طالبات میں برقعے تقسیم کیے جانے کی شکل میں انتہا پسندی دوبارہ سر اٹھارہی ہے۔ ایسے اقدامات خواتین کی آزادیوں کو محدود کرنے کی واضح اور طالبانائزیشن کے فروغ کی ایک دانستہ کوشش ہے۔
‘ حکومت صحت اور تعلیم کے لیے مزید فنڈز مختص کرنے کی بجائے ان شعبوں کے وسائل میں کمی کی جانب مائل دکھائی دیتی ہے۔ ہم حکومت کو یاد دلاتے ہیں کہ ریاست کی یہ آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو تعلیم تک رسائی دے اور اس کی یہ اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک بھر میں صحت کی معیاری سہولیات کی فراہمی کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرے۔
‘ ہمیں ہندوستانی حکومت کی جانب سے کشمیر میں لاک ڈاؤن پر گہری تشویش ہے۔ اس اقدام کی وجہ سے انسانی حقوق کا بحران پیدا ہوچکا ہے۔ ہمیں سرحد کی دونوں اطراف سے جاری ہونے والے جنگ سے متعلق بیانات پر بھی سخت تشویش ہے۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں کو فوری طور پر تسلیم کرنا ہوگا کہ کشمیر کے عوام کو خودارادیت کا حق حاصل ہے اور یہ کہ علاقائی امن کا تحفظ اور فروغ دونوں ممالک کی ذمہ داری ہے۔
‘ہم ماحولیاتی تبدیلی پر قابو پانے کے حوالے سے عالمی اور ملکی تحاریک کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں اور ریاست پر زور دیتے ہیں کہ وہ اس انتباہ پر توجہ دے کہ اگر اس نے ماحول کو پہنچنے والے ناقابلِ تلافی نقصان پر قابو پانے کے لیے اقدامات نہ کیے تو اس کے نتیجے میں مستقبل کی نسلیں زندگی کے حق سے محروم ہوجائیں گی۔’
چیئر پرسن ڈاکٹر مہدی حسن کے ایما پر