(عالمی وفاق برائے انسانی حقوق (ایف آئی ڈی ایچ

(اور اس کی رکن تنظیم پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی

کی مشترکہ پریس ریلیز

پاکستان نے اقوام متحدہ کی زیرِ نگرانی انسانی حقوق کے جائزے کے موقع پر

اپنے عزم کے اظہار کا سنہری موقع ضائع کردیا ہے

 

لاہور، پیرس ، 16 مارچ 2018 : پاکستانی حکومت نے اقوام متحدہ کی زیرِ نگرانی انسانی حقوق کے ایک جائزے کے دوران انسانی حقوق کے اہم معاملات سے نبٹنے کے لیے اپنے عزم کا مظاہرہ کرنے کا ایک اور موقع کھو دیا ہے۔ان خیالات کا اظہار ایف آئی ڈی ایچ اور اس کے رکن ادارے پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے آج اپنے ایک بیان میں کیا ہے۔

پاکستان کی انسانی حقوق کی صورتحال کا اندازہ اس کے تیسرے سلسلہ وار جائزے(یوپی آر) میں لگایا گیا تھا جو کہ 13نومبر 2017ءکو سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں منعقد ہوا تھا۔ پاکستان کے تیسرے یو پی آر کے نتائج کی منظوری16مارچ 2018ءکوجنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 37ویں اجلاس میں دی جائے گی۔

ایف آئی ڈی ایچ کے سیکریٹری جنرل ڈیبی سٹاتھرڈنے کہا ” اگرچہ حکومتِ پاکستان کو جو سفارشات موصول ہوئی تھیں ان میں سے اس نے 60فیصد کو تسلیم کیا تھا تاہم یہ بات صاف ظاہر ہے کہ حکومتِ پاکستان ملک میں جاری انسانی حقوق کی سنگین ترین خلاف ورزیوں جیسے کہ جبری گمشدگی، مذہبی اقلیتوں پر مظالم، سزائے موت کا استعمال، اور عام شہریوں کے مقدمات کی فوجی عدالتوں میں سماعت کی روک تھام کے لیے سیاسی عزم نہیں رکھتی“۔

تیسرے یو پی آر کے دوران حکومتِ پاکستان کواقوام متحدہ کی رکن ریاستوں کی جانب سے کل 289سفارشات موصول ہوئیں جن میں سے اس نے 168کو تسلیم کیا، 117 کو غوروخوض کے لیے قلم بند کیا جبکہ 4کو رد کیا۔

ایچ آر سی پی کے چیئرپرسن ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا:” ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال کے جائزے کے حوالے سے پاکستان کا ردعمل ناکافی رہا ہے۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے سزائے موت کے خاتمے سے مکمل انکار، بشمول نو عمر بچوں اور ان مجرموںکے لیے جنہوں نے سنگین ترین جرائم کا ارتکاب نہیں کیا ہوتا، خاص طور پر مایوس کن ہے کیونکہ یہ انسانی حقوق سے متعلق پاکستان پر عائد بین الاقوامی ذمہ داریوں کی کھلی خلاف ورزی ہے“۔

ایف آئی ڈی ایچ اور ایچ آر سی پی حکومتِ پاکستان پر زور دیتے ہیں کہ وہ فوری طورپر ان سفارشات پر عمل درآمد کا آغاز کرے جنہیں اس نے تسلیم نہیں کیاتھااور جو انسانی حقوق کے اُن معاہدوں کے تحت اس کی ذمہ داریوں کے عین مطابق ہیں جن کا پاکستان فریق ہے۔

ذیل میں اقوام متحدہ کی رکن ریاستوں کی جانب سے انسانی حقوق کے اہم معاملات سے متعلق پیش کی گئیں سفارشات پر حکومتِ پاکستان کے ردعمل کا مختصر تجزیہ کیا گیا ہے۔

سزائے موت

حکومت کو سزائے موت سے متعلق 34 سفارشات پیش کی گئیں تاہم حکومت نے ان میں ایک بھی سفارش تسلیم نہیں کی تھی۔ ان میں سے 22 سفارشات میں سزائے موت پر پابندی بحال کرنے، 8 میں عالمی میثاق برائے شہری وسیاسی حقوق کے دوسرے اختیاری پروٹول (آئی سی سی پی آر۔او پی2)، اور چار سفارشات میں بچوں پر سزائے موت کا اطلاق نہ کرنے اور انہیں پھانسی دینے کا سلسلہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

جبری گمشدگیاں

حکومت نے جبری گمشدگیوں (انسانی حقوق کے محافظین کی جبری گمشدگیوںسمیت) کے الزامات کی تحقیقات سے متعلق دو سفارشات تسلیم کیں، تاہم، حکومت نے تمام افراد کو جبری گمشدگیوں سے تحفظ فراہم کرنے کے عالمی میثاق (آئی سی پی پی ای ڈی) کی توثیق کی ذمہ داری لینے سے انکار کردیا تھا۔

عام شہریوں کے ٹرائل کے لیے فوجی عدالتوں کا استعمال

حکومت نے ان دو سفارشات کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا جن میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ عام شہریوں کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہ کیا جائے۔

انسانی حقوق کے محافظین کا تحفظ

حکومت نے انسانی حقوق کے محافظین کو تحفظ فراہم کرنے اور ان پر حملوں (جبری گمشدگیوں سمیت) کی تحقیقات کا مطالبہ کرنے والی چھ سفارشات میں سے صرف تین تسلیم کی تھیں۔

اظہارِ رائے کی آزادی کا حق

حکومت نے صحافیوں کے تحفظ اور ان پر حملوں کے خلاف قانونی کارروائی کے فقدان کے خاتمے سے متعلق کی گئی سات سفارشات میں سے صرف چار تسلیم کی تھیں۔ اس کے علاوہ، حکومت نے مذہب کی تضحیک سے متعلقہ قوانین کے خاتمے یا ان میں ترمیم سے متعلق کی گئی 14 سفارشات میں سے ایک بھی تسلیم نہیں کی تھی اور نہ ہی حکومت نے آن لائن اظہارِ ر رائے کی آزادی سے متعلق کی گئی سفارش تسلیم کی۔

مذہبی اقلیتوں کا تحفظ، مذہب یا عقیدے کی آزادی کا حق

حکومت نے ان دس سفارشات میں سے ایک بھی تسلیم نہ کی جن میں مذہبی اقلیتوں اور مذہب یا عقیدے کی آزادی کے حق کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ حکومت نے اپنی ذمہ داری اقلیتوں پر تشدد کی تمام اطلاعات کی تحقیقات کرنے اور ان واقعات میں ملوث ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لانے تک محدود رکھی۔

خواتین کے حقوق

حکومت نے خواتین کے حقوق سے متعلق موصول ہونے والی 54 سفارشات میں 41 تسلیم کیں۔ ان میں وہ سفارشات بھی شامل تھیں جن میں خواتین کے حقوق کا مطالبہ، اور عورتوں ولڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور ان پر تشدد کی روک تھام، اور عورتوں پر تشدد کرنے والوں کو سزا دینے کے لیے قانون سازی سمیت تمام ضروری اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت نے لڑکیوں کی شادی کی کم ازکم عمر 16 سے بڑھا کر 18 سال کرنے سے متعلق چار سفارشات اور عورتوں کے خلاف ہر قسم کے استحصال کے خاتمے کے میثاق کے اختیاری پروٹوکول (سیڈا۔اوپی) کی توثیق سے متعلق تین سفارشات تسلیم نہیں کیں۔

ایل جی بی ٹی آئی کے حقوق

حکومت نے ہم جنس پرست عورتوں ومردوں، دونوں جنسوں کی خصوصیات رکھنے والے افراد، خواجہ سراﺅں، مردوں و عورتوں ،دونوں کے خصائل کے حامل افراد (ایل جی بی ٹی آئی) کو تشدد وامتیازی سلوک سے بچانے اور ان کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے کی گئی سات سفارشات میں سے کوئی ایک بھی تسلیم نہیں کی۔