پنجاب اسمبلی تعصب کو فروغ دینے سے گریز کرے: ایچ ار سی پی
لاہور، 24 جولائی۔ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کو اِن دنوں سامنے آنے والی ایسی پیشرفتوں پر شدید تشویش ہے، جن کا مقصد دانشورانہ سوچ، تحقیق اور اظہار کی آزادی کے لیے اور گُھٹن پیدا کرنا ہے اِن میں سب سے پریشنان کن پیش رفت پنجاب تحفظِ بنیادِ اسلام ایکٹ 2020 ہے، جس نے (دیگر مواد کے علاوہ) ایسی کتب کی اشاعت پر پابندی عائد کر دی ہے جو غیراخلاقی، مذہبی لحاظ سے توہین آمیز، یا ریاست مخالف تصور کی جاتی ہیں۔
اس حقیقت کو پیشِ نظر رکھیں کہ مجموعہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 505(2) اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 8 لسانی اور فرقہ ورانہ اعتبار سے نفرت انگیز تقریر کو پہلے ہی جرم قرار دے چکی ہیں، تو پھر یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اِس نئی قانون سازی میں چُھپی نیّت ‘ کتاب جلانے’ والی پرانی روایت سے ملتی جلتی ہے۔ ڈائریکٹوریٹ جنرل تعلقات عامہ کو یہ اخیتار دینا کہ وہ تمام شہریوں کے اِیما پر فیصلہ کرے کہ کونسا ‘مواد قابلؚ اعتراض’ ہے، ناقابلِ قبول امر ہے۔ یہ توقع رکھنے کی معقول وجہ بھی ہے کہ نئے ایکٹ کی دفعہ (و) مذہبی اقلیتوں اور فرقوں کے خلاف بھی استعمال ہو گی۔
ایچ آر سی پی کے لیے یہ امر بھی لمحہ فکریہ ہے کہ پنجاب نصاب و درسی کتب بورڈ نے ایسی دس ہزار کتابوں پر، بورڈ کے بقول ‘تنقیدی نظرثانی’ شروع کر دی ہے جو صوبے بھر کے نجی سکولوں میں پڑھائی جا رہی ہیں اور بورڈ پہلے سے ہی 100 کتابوں پر غیرمعقول وجوہ کی بنیاد پر پابندی عائد کر چکا ہے۔
بورڈ کے مینجنگ ڈائریکٹر نے پریس کانفرنس میں جو وجوہ بیان کی ہیں اُن میں سے ایک بھی مواد پر پابندی عائد کرنے، ناشرین کو سزا دینے اور تنقیدی سوچ پر بندش لگانے کی معقول وجہ تصور نہیں کی جا سکتی۔
ایچ آر سی پی کو خدشہ ہے کہ یہ اقدامات نہ صرف اظہار کی آزادی بلکہ فکر، ضمیر اور مذہب کی آزادی پر بھی اور زیادہ سخت پابندیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے۔ کمیشن کا حکومت ِ پنجاب سے مطالبہ ہے کہ وہ اُس کے تحفظات پر توجہ دے اور یہ اقدامات واپس لے اِس سے پہلے کہ یہ خود حکومت کے لیے بھی نقصان دہ اثرات کی شکل اختیار کر لیں۔
چئیرپرسن ڈاکٹر مہدی حسن کے ایماء پر