لاہور
13مئی 2015ء
پریس ریلیز
کراچی میں ایک بس پر حملہ کے نتیجے میں ہونے والے قتل وغارت گری کی شدید مذمت کرتے ہوئے پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے کہا ہے کہ ارباب اقتدار، سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کی جانب سے اس واقعے کی محظ مذمت، ملامت اور اظہار ہمدردی ہی کافی نہیں۔اسماعیلی فرقہ سے تعلق رکھنے والے ان لوگوں کا کیا جرم تھا جس کی سزا انہیں موت کی شکل میں دی گئی۔ اس ہولناک واقعہ کی مذمت تمام سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق سمیت تمام انسان دوست تنظیموں نے کی ہے۔
ایک بیان میں کمیشن نے کہا کہ ”یہ ایک ایسا المیہ ہے جسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ قاتلوں کے جتھوں نے ایک بار پھر پاکستان کی بیٹیوں اور بیٹوں کو بے رحمی سے موت کے گھاٹ اتارا اور بڑی آسانی سے فرار ہوگئے۔ فرق صرف یہ تھا کہ اس مرتبہ مقتولوں کا تعلق اسماعیلی فرقے سے ہے“
”سرکار کی طرف سے تسلی اور دلاسے کے بول متاثرین کواس لیے بے معنی اور کھوکھلے لگتے ہیں کہ ریاست ایک بار پھر شہریوں کے زندہ رہنے کے حق، جس سے باقی تمام حقوق پھوٹتے ہیں، کو تحفظ دینے میں بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ جب کچھ لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ مقتولین کے لواحقین کے دکھ درد کو سمجھتے ہیں توشاید یہ بات درست نہیں اس لئے کہ یہ درد وہی لوگ محسوس کرسکتے ہیں جن کے بچے پشاور کے آرمی سکول میں شہید ہوئے یا دوسرے ایسے ہی بے شمار واقعات میں دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ یہ حکام کی ذمہ داری ہے کہ وہ وضاحت کریں کہ تمام سکیورٹی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی موجودگی میں کے باوجود ایسے قتل عام کو روکنے کا انتظام کیوں نہیںکرسکے۔ انہیں یہ وضاحت بھی کرنی چاہئے کہ نیشنل ایکشن پلان یا کسی اور منصوبے یا طریق کار کے ذریعے ایسے واقعات کی روک تھام کیسے کی جاسکتی تھی اور مستقبل میں اس کی روک تھام کیسے ممکن ہوگی۔ وضاحت تو اس امر کی بھی کی جانی چاہئے کہ حملہ آوروں نے پولیس یونیفارم کیسے حاصل کیں اورہتھیاروں کے بلا روک ٹوک پھیلاﺅ پر قابو پانے کے لئے کیا منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ حکومتی دعوﺅں کے برعکس پھانسی کی سزاﺅں کی بحالی اور فوجی عدالتوں کے قیام جیسے اقدامات کے باوجود دہشت گردی کی روک تھام میں ناکامی پر عوام حکومت سے وضاحت طلب کرنے میں حق بجانب ہیں“۔
”آج سب پر یہ بھی واضح ہوجانا چاہئے کہ جب تک انتہا پسندوں کے تمام گروہوں کو گرفت میں نہیں لیا جاتا اس وقت تک ملک میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ طالبان اور دہشت گردوں کے دوسرے گروہ پاکستان میں پُرتشدد کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے ذمہ دار اداروں کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنا کام دلجمعی اور ذہنی یکسوئی کے ساتھ کریں“۔
”کراچی میں اسماعیلی فرقے سے تعلق رکھنے والے پاکستانیوں کے قتل پرحکام کی طرف سے لفظوں اور ہمدردی سے زیادہ عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتوں، میڈیا اور سول سوسائٹی کا بھی فرض ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنا دباﺅ بڑھائیں اور حکام کو عملی اقدامات کرنے پر مجبور کریں“۔
”ایچ آر سی پی جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین سے اظہار تعزیت کرتا ہے اور ان کے دکھ میں برابر کا شریک ہے۔ اس واقعہ پر بے بسی،دکھ اور غصے کا اظہار صرف متاثرہ خاندانوں کی طرف سے ہی نہیں بلکہ معاشرے کے تمام افراد کی طرف سے ضروری ہے۔یہ ہولناک واقعہ اس بات کا متقاضی ہے کہ ایسے واقعات پر خاموش رہنے والے لوگ اپنی خاموشی توڑیں اور نفرت کے اظہاریئے، تشدد کے فروغ اور قاتلوں کو کسی بھی قسم کی ملنے والی حمایت کے خلاف اپنی آواز شدت کے ساتھ بلند کریں۔ سول سوسائٹی، میڈیا اور سیاسی جماعتوں کو اب خاموش تماشائی نہیں بنے رہنا چاہئے۔ انہیں اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے حکام کو باور کرانا چاہئے کہ وہ اپنے اُن فرائض سے اغماض نہ برتیں جو عوام کے حوالے سے ان پر عائد ہوتے ہیں۔ کم ازکم کراچی میں آج جاں بحق ہونے والے شہریوں کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی ذمہ داری میں تو غفلت نہ برتیں“۔
(زہرہ یوسف)
چیئر پرسن ایچ آرسی پی