پریس ریلیز
لاہور
27-نومبر2017
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے جبری گمشدگیوں کی حالیہ لہر کی شدید مذمت کی ہے۔ جبری گمشدگی کے ان واقعات میں کراچی میں بلوچ طالبعلموں اور کارکنوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ایچ آر سی پی نے مطالبہ کیا ہے کہ ان طالبعلموں اور انسانی حقوق کے کارکنوں پر اگر کسی جرم کا الزام ہے تو انہیں اپنے قانونی دفاع کا حق دیا جائے یا سکیورٹی فورسزنے انہیں اپنی تحویل میں لے رکھا ہے وہ انہیں فوری طور پر رہا کریں۔
پیر کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کمیشن نے کہا: ’’ایچ آر سی پی کویہ جان کر شدید تشویش ہوئی ہے کہ سکیورٹی اہلکاروں نے چند دن پہلے کراچی میں ایک گھر پر حملہ کیا اور بی ایس او (آزاد) اور بی این ایم سے تعلق رکھنے والے چار بلوچ طالب علموں کو گرفتار کیا: مسٹر ثناء اللہ ، (عرف عزت بلوچ)، مسٹر حسن (عرف نودان)، مسٹر نصیر احمد(عرف چراغ) اور مسٹر رفیق بلوچ (عرف قمبر)۔ ایک اور طالب علم مسٹر صغیر احمد کو جامعہ کراچی کی کینٹین سے اٹھایا گیا تھا۔مزید برآں ہفتے کے اختتام پر، ایک بلوچ سماجی رہنما اور انسانی حقوق کے کارکن مسٹر اکبر علی گبول کو آدھی رات کے وقت گلشن اقبال میں واقع ان کے گھر سے اٹھایا گیا۔ ایچ آر سی پی تمام پاکستانی شہریوں کی غیر قانونی گرفتاری اور حراست کی مذمت کرتا ہے مگر جب انسانی حقوق کے محافظین اور انسانی حقوق کی آگاہی پھیلانے والے طالب علموں کو بظاہر ان کے کام کی وجہ سے نشانہ بنایا جاتا ہے تو کمیشن کی تشویش میں بہت زیادہ اضافہ ہوتا ہے‘‘۔
ایچ آرسی پی کا مطالبہ ہے کہ اگر ا ن طالب علموں میں سے کسی پر بھی کسی قسم کا الزام ہے تو انہیں اس سے آگاہ کیا جائے اور انہیں بغیر کسی تاخیر کے عدالت میں پیش کیا جائے اور قانونی دفاع کا حق دیا جائے۔ تاہم اگر انہوں نے کوئی جرم سرزد نہیں کیا تو انہیں فوری طور پر رہا کیا جائے۔
ایچ آر سی پی حکام، خاص طور پر وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سندھ سے پرزور مطالبہ کرتا ہے کہ سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کی موثر نگرانی کی جائے تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جاسکے کہ وہ شہریوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے مرتکب نہ ہوں اور جن شہریوں کے حقوق پامال ہوئے ہیں ان کی مؤثر تلافی ہوسکے۔
ڈاکٹر مہدی حسن
چیئر پرسن ایچ آرسی پی