لاہور
6اکتوبر،2015ء
پریس ریلیز
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے جمہوریت اور انسانی حقوق کو درپیش خطرات میں اضافے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت سماج میں انسانی حقوق کو نظرانداز کرنے کے علاوہ سول۔ فوجی عدم توازن میں اضافہ ہورہا ہے جس کے باعث جمہوریت اور انسانی حقوق کو شدید خطرات کا سامنا ہے۔ یہ بات ایک بیان میں کہی گئی جو کمیشن کی ایگزیکٹو کونسل کے موسم خزاں کے اجلاس کے بعد جاری کیاگیا۔ بیان میں کہا گیا کہ کونسل کو ان چیلنجوں پر گہری تشویش ہے جن کے باعث جمہوریت ایک بار پھر خطرات میں گھر چکی ہے اور بنیادی انسانی حقوق کو کچھ عناصر ملیا ملیٹ کرنے پر تلے ہوئے نظر آتے ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ فوج اور سکیورٹی فورسز کی طرف سے جو تقاریر اور بیانات جاری کئے جارہے ہیں وہ واضح طور پر اپنی حد سے تجاوز کرتے نظر آتے ہیں۔ اور یہ جمہوریت کے لیے ہی نہیں بلکہ پاکستان میں منتخب حکومت کے لئے بھی شدید خطرے کا باعث ہیں۔ بجائے اس کے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پر توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ ساتھ، سیاسی قیادت اور پارلیمان فوری طور پر ان مسائل پر توجہ دینی چاہئے جو عوام کو عرصہ دراز سے درپیش ہیں۔ مزید برآں گورننس پر اپنی توجہ کو مرکوز کرنے کے ساتھ ساتھ شفافیت اور ان عوام کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے جن کے وہ منتخب نمائندے ہیں۔ایسے لگتا ہے جیسے جان بوجھ کر کسی منصوبے کے تحت ملکی معاملات میں فوجی قیادت کی مداخلت کو اس حد تک موثر بنایا جارہا ہے کہ آخر کار منتخب سول حکومت عموی طور پر عضو معطل بن کر رہ جائے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اختلاف رائے کو برداشت نہ کرنے کا رجحان ایک انتہائی بری خبر ہے۔ آج آپ ایک یا دو لوگوں کی زبان تو بند کرسکتے ہیں لیکن آپ کوئی ایسا کام کیوں نہیں کرتے جو دوسروں کے لیے بھی ایک مثال ہو اور سب کی زبانیں بند ہوجائیں۔ اورپھر میڈیا اور صحافیوں کو بھی ایسے کئی چیلنجوں کا سامنا ہے جنہوں نے انہیں پہلے سے زیادہ غیر محفوظ بنا دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف صحافیوں، وکلاء اور دیگر پیشہ ور افراد کو تشدد کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے بلکہ اس کی وجہ سے یا تو میڈیا نے خود پر ہی سنسر شپ عائد کردی ہے یا ایک ’’محتاط‘‘ یا’’نام نہاد خود احتسابی‘‘ حکمت عملی اپنا لی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں سول سوسائٹی کی تنظیموں کے لئے حالات ویسے تو کبھی بھی آسان نہیں رہے، لیکن کچھ عرصے سے انہیں بدنام کرنے اور ان کی کردار کشی کے لئے ایک باقاعدہ مہم چلائی جارہی ہے۔ اگرچہ سول سوسائٹی ان تمام اقدامات کا خیر مقدم کرتی ہے جن کا مقصد شفافیت ہے، تاہم انہیں اپنے کام میں بڑھتی ہوئی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ وہ لوگ جو پہلے ایسی مداخلتوں اور شکایات کا نوٹس لیا کرتے تھے اب انہوں نے دانستہ طور پر شکایات کو نظر انداز کررکھا ہے۔ دراصل، سول سوسائٹی کی تنظیموں کے دفاتر کا دورہ کرنے والے سکیورٹی اور انٹیلی جنس افسران کا یہ کہنا ہے کہ وہ یہ ’’تفتیش‘‘ این جی اوز کے حوالے سے سپریم کورٹ کے جاری کردہ حکم پر کر رہے ہیں۔ انسانی حقوق کے محافظین جو پہلے ہی ایک خطرناک ماحول میں کام کرتے ہیں ،اس کردار کشی کی وجہ سے ان کی زندگیوں کو اور زیادہ خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ اس پس منظر اور حقوق کے محافظین کو انتہا پسندوں اور جنگجو عناصر سے تحفظ فراہم کرنے میں ناکامی نے انہیں پہلے سے زیادہ غیر محفوظ بنا دیا ہے۔علاوہ ازیں سول سوسائٹی کے کارکنوں کا تعاقب کرکے ریاست خود کو اہم معاملات کے بارے میں مختلف آراء تک رسائی سے محروم رکھ رہی ہے۔
سول سوسائٹی اور آئی ٹی کے ماہرین کو مجوزہ سائبر کرائم قانون پر کئی تحفظات ہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ریاست اصلاحات کے بارے میں معقول تجاویز پر غور کرنے کو تیار نہیں اور اس نے اس حقیقت کو نظر انداز کردیا ہے کہ اس غیر لچکدار رویے کے بنیادی آزادیوں پر شدید اثرات مرتب ہوں گے۔ ان تجاویز پر غور کرنا چاہئے اور اس قانون کو حفاظتی تدابیر کے ساتھ بہتر کرنا چاہئے۔ یہ امر بلا جواز ہے کہ ایسا خاص قانون حکام کی جانب سے غیر قانونی مخبری کا احاطہ نہیں کرتااوراسے جرم قرار نہیں دیتا۔
یہ بات اب کافی حد تک واضح ہو چکی ہے کہ بدقسمتی سے تمام صوبے بلدیاتی نظام کے حوالے سے ہچکچاہٹ یا شک و شبہات کا شکارہیں؛ کچھ اس کا اظہار بلدیاتی انتخابات کو ملتوی کرنے کے بہانے تلاش کرتے ہوئے کرتے ہیں جبکہ دوسرے اس کا اظہار مقامی حکومتو ں کوبامقصد طریقے سے کام کرنے کی اجازت دینے سے انکار کرتے ہوئے کرتے ہیں۔ صوبائی حکومتوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ فعال مقامی حکومتیں نہ صرف ایک آئینی شرط ہے بلکہ یہ آئین کی اٹھارہویں ترمیم کے تحت اختیارات کی منتقلی کا تسلسل بھی ہے۔ مقامی سطح پر حکومت کے ذریعے لوگوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرکے ہی جمہوریت کی ساکھ میں اضافہ اور نمائندہ حکومت پر رائے دہندگان کا اعتماد بحال کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی میں امن و امان کی صورتحال ستمبر 2013ء کی نسبت کافی بہتر ہے جب وہاں رینچرز نے آپریشن شروع کیا تھا۔ تاہم یہ بھی سچ ہے کہ اس عرصے کے دوران سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مقابلوں میں متعدد ہلاکتوں اور حقوق کی خلاف ورزیوں کی شکایات بھی سامنے آتی رہی ہیں۔ جبری گمشدگیوں ، دوران حراست ہلاکتوں، تشدد اور آپریشن کے غیرجانبدارانہ نہ ہونے کے الزامات ایک کڑی جانچ کا تقاضہ کرتے ہیں۔اس شکایت کا لب لباب یہ ہے کہ رینجرز کی کاروائیوں پر نظر رکھنے کے لئے کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔ آپریشن میں سویلین کردار اور نگرانی کا کوئی وجود دکھائی نہیں دیتا۔ آپریشن سے حاصل ہونے والے مقاصد کی پائیداریِ ، خاص طور پر آپریشن ختم ہونے کے بعد پولیس کی ذمہ داریاں سنبھالنے کی اہلیت سے متعلق سوالات جوں کے توں برقرار ہیں۔
بلوچستان کے حوالے سے بیان میں کہا گیا ہے کہچستان کے بحران کے سیاسی حل کے حوالے سے پیچیدگیاں برقرار ہیں کیونکہ صوبے سے ملے جلے پیغامات سامنے آئے ہیں۔بلوچستان کے عوام کو مذاکراتی عمل میں شامل کیا جانا چاہئے اور انہیں اس سطح کی جمہوریت سے محروم نہیں کیا جانا چاہئے جو دوسرے صوبوں میں رائج ہے۔ ہوسکتا ہے بلوچستان میں اغواء برائے تاوان میں کمی آئی ہو لیکن صوبائی دارالحکومت کے اندر اور باہر امن و امان سے متعلق دیگر کئی مسائل اب بھی موجود ہیں۔ گمشدگیوں کی اطلاعات اب بھی موصول ہوتی رہتی ہیں اور آواران جیسے علاقوں میں سکیورٹی فورسز کا آپریشن جاری ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ مصائب سے دوچار اس علاقے کے شہریوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لئے با مقصد اقدامات کئے جائیں۔
اقلیتوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہپاکستان میں مذہبی اقلیتیں اب بھی تمام شہریوں میں سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں۔ مذہب کی بنیاد پر تشدد، امتیازی سلوک اور قانون کے غیر مساوی تحفظ کے حوالے سے اقلیتوں کی مسلمہ شکایات کا ابھی تک ازالہ نہیں کیا گیا۔ حکومت نے نفرت انگیز تقاریر کو روکنے کی تھوڑی بہت کوشش تو کی ہے لیکن مجرموں کو حاصل سزا سے استثنیٰ کے باعث یہ روایت اب بھی برقرار ہے۔ شہریوں سے بدلہ لینے یا انہیں سزا دینے کے لئے توہین مذہب کے قانون کے استعمال اور وکلاء اور ججوں کو دھمکائے جانے کے باعث ایسے مقدمات پر غیر جانبدارانہ فیصلہ دینا ناممکن ہوگیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ قصور میں بچوں سے زیادتی اور استحصال کے واقعات کسی بھی مہذب معاشرے کا سر شرم سے جھکا دینے کے لئے کافی ہیں۔ قصور میں بچوں کے جنسی استحصال، ان کی ویڈیوز بنانے اور فروخت کرنے کی مثال ملک کے کسی حصے میں نہیں ملتی۔ اس شرمناک معاملے نے اس حقیقت کو بے نقاب کردیا ہے کہ قوم کے بچوں کے لئے کوئی تحفظ موجود نہیں۔ ہمیں ان واقعات سے سبق سیکھنا چاہئے اور سول سوسائٹی کو اس بات پر نظر رکھنی چاہئے کہ اس معاملے کو حسب معمول نظرانداز نہ کردیا جائے۔
گمشدگیوں کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ جبری گمشدگیوں کے واقعات کی اطلاعات ملک کے تقریباً تمام علاقوں سے موصول ہو رہی ہیں، لیکن انسانی حقوق کی اس سنگین خلاف ورزی کو حکام، عدلیہ اور حتیٰ کہ میڈیا کی جانب سے جو توجہ ملنی چاہئے تھی وہ نہیں مل سکی۔ اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ نے جبری گمشدگیوں کے بارے میں 2012ء میں جو سفارشات کی تھیں ان پر عمل نہیں کیاگیا اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکام کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ اگر حالات کو بہتر کرنا ہے تو ورکنگ گروپ کی سفارشات پر فی الفور عمل کرنا ہوگا۔
فوجی آپریشنوں میں شفافیت کے فقدان کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ملک بھر میں ہر قسم کے جنگجوؤں کے خلاف کاروائی کی ضرورت پر کافی عرصے سے بحث ہوتی رہی ہے اور اب وہ لوگ بھی اس بات پر متفق ہو گئے ہیں جو گزشتہ سال پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے حملے کے بعد ایسا کرنے سے انکاری تھے۔ تاہم فوجی آپریشن کے چند پہلو ؤں پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ملک کے شمال مغربی حصوں میں جاری آپریشنوں میں شفافیت کا فقدان ہے اور معلومات تک رسائی میں میڈیا اور سول سوسائٹی کی مشکلات کے باعث معاملات مزید گھمبیر ہو گئے ہیں۔ آپریشنوں میں سویلین عمل دخل اور نگرانی کا فقدان ہے۔ اسے بلا تاخیر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپریشنوں کے نتیجے میں بے دخل ہونے والے پاکستانیوں کی حالت زار ترجیحات میں شامل نہیں۔ نہ صرف ان کے مصائب دور کئے جانے چاہئیں بلکہ بے دخلی سے بچنے کے لئے تجربات سے سیکھتے ہوئے پالیسیاں بنانی چاہئیں۔
چیئر پرسن اور کونسل اراکین