پریس ریلیز

گلگت – بلتستان اصلاحات وہاں کے لوگوں کو مکمل شہری  کا درجہ نہیں دلا سکیں

لاہور، 24 مئی 2018: پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق(ایچ آرسی پی) نے حکومت گلگت- بلتستان (جی بی) آرڈر 2018 پرشدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ آرڈر جی بی کے لوگوں کی اس توقع پرپورا نہیں اترسکا کہ اس کے ذریعے انہیں پاکستان کا مکمل شہری تسلیم کیا جائے گا۔

آج جاری ہونیوالے ایک بیان میں، ایچ آرسی پی نے کہا: ‘جی بی کے عوام کو بنیادی آزادیاں دینے کے دعوے کی آڑ میں، جی بی آرڈرنے درحقیقت ان لوگوں سے انجمن سازی اوراظہارکی آزادی کا حق چھین لیا ہے۔ اس آرڈرکی رُو سے، گلگت – بلتستان کا کوئی بھی باشندہ نہ تو سپریم اپیلٹ کورٹ کا چیف جج بن سکتا ہے اورنہ ہی ان لوگوں کو علاقے کی اندرونی سیکیورٹی کے معاملات میں کوئی کردارادا کرنے کا حق حاصل ہے۔ سب سے بڑھ کریہ کہ اس قانون نے عوام کے تحفظات کو مکمل طورپرنظرانداز کیا ہے حالانکہ جی بی میں عوام کا پرزورمطالبہ کہ وہاں کے لوگوں کے مسائل ان کی خواہشات کو مدنظررکھ کر حل کیے جائیں ۔ بابا جان اوران کے ساتھیوں کی قید ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے۔ انہیں اپنے بنیادی حقوق کے لیے کھڑا ہونے کی پاداش میں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑرہی ہیں۔ یہ ۔ جی بی آرڈرمیں ایسا کوئی بندوبست نہیں جس سے اس چیز کو یقینی بنایا جا سکے کہ مستقبل میں بابا جان اوران جیسے دیگرلوگوں کو محفوظ رکھا جاسکے گا۔

‘گلگت – بلتستان کے لوگ بھی انہی حقوق کے مستحق ہیں جو پاکستان کے دیگرشہریوں کو حاصل ہیں۔ ملک کے آئین کی رُو سے، جی بی کے عوام ریاست سے ‘وفاداری’ کے پابند ہیں نہ کہ جی بی آرڈر یا حکومت کے سربراہ سے ۔ آس آرڈرکے ذریعے وزیراعظم کو ملنے والےغیرمعمولی اختیارات سے جی بی کو حقیقی معنوں میں ایک صوبے کی حیثیت ملنے میں کسی قسم کی کوئی  مدد نہیں ملےگی-

ایچ آرسی پی نے اپنے اس مطالبے پرایک بارپھرزوردیا ہے کہ ایسی کسی بھی قسم کی اصلاحات کو بامعنی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ جی بی کے عوام کے ساتھ بھی دیگرصوبوں کے شہریوں جیسا سلوک کیا جائے۔

ڈاکٹرمہدی حسن

‏‏چیئرپرسن