۔ 2020 کے دوران پنجاب میں وباء نے پسے ہوئے طبقوں پر تباہ کن اثرات مرتب کیے
لاہور، 23 جون۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی سالانہ رپورٹ، 2020 میں انسانی حقوق کی صورت حال میں وضاحت کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ کوویڈ 19 نے بیماریوں سے نمٹنے کی تیاری اور سہولیات تک رسائی، دونوں میدانوں میں شعبہ صحت کی خامیوں کو کس حد تک بےنقاب کیا ہے۔ خاص طور پر، پنجاب کی جیلوں میں حالات خطرناک نہج تک پہنچ گئے تھے جہاں گنجائش سے کہیں زیادہ قیدیوں کی موجودگی اور ناقص حفظان صحت نے پہلے سے ہی غیرمحفوظ قیدیوں کے لیے صورت حال اور زیادہ گھمبیر بنا دی تھی۔
سب سے زیادہ مسائل کا سامنا فیکڑی مزدوروں اور دہاڑی دار محنت کشوں کو کرنا پڑا۔ لاک ڈاؤن کے دوران لاکھوں مزدور ملازمت سے نکال دیے گئے۔ آن لائن کلاسز صرف ان علاقوں کے لیے مفید ثابت ہوئیں جہاں انٹرنیٹ سروس کی فراہمی کا مستحکم نظام موجود تھا۔اس تکلیف دہ حقیقت نے طالب علموں کو احتجاج کرنے پر مجبور کیا۔ البتہ، ایسے عوامی اجتماعات کو محدود کرنے والی کاروائیاں حکام کی متلوّن مزاجی کی غماز تھیں، اور سیاسی اجتماعات کو مذہبی اجتماعات یا عام شہریوں کے احتجاجی مظاہروں کی نسبت زیادہ پابندیوں کا سامنا تھا۔
پنجاب درسی کتب و نصابی ترمیمی بل اور پنجاب تحفظ بنیاد اسلام بل 2020 کی منظوری عوام کے غم و غصّے کا نشانہ بنی جن کا کہنا تھا کہ مذہب کے تحفظ کی آڑ میں ان قوانین کے ذریعےاظہار، فکر اور عقیدے کی آزادیوں پر مزید پابندیاں لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
زیرالتوا مقدمات کے انبار سے نمٹنے کے لیے کوئی خاطرخواہ پیش رفت نہ ہو سکی۔ دسمبر 2020 کے اختتام پر، عدالت عالیہ لاہور میں 188,176 مقدمات تصفیہ طلب تھے۔ ایچ آر سی پی کے مشاہدے کے مطابق، سال کے دوران، 91 مقدمات میں 148 افراد کو سزائے موت سنائی گئی۔ تاہم حوصلہ افزاء پیش رفت یہ ہے کہ کسی فرد کو پھانسی نہیں دی گئی۔
پنجاب میں قانون کا نفاذ پولیس فورس میں لگاتار تبادلوں اور اندرونی کشمکش کا شکاررہا۔ شہریوں کی شکایت تھی کہ ابتدائی اطلاعاتی رپورٹ کے انداراج میں انہیں شدید مشکلات پیش آتی رہیں، خاص طور پر پولیس ‘مقابلوں’ یا پولیس کی تحویل میں ان کے رشتہ داروں کی ہلاکت، یا اراضی پر بااثر افراد کے قبضے ایسے واقعات میں۔ قومی احتساب بیورو بھی سیاسی بنیادوں پر گرفتاریاں کرنے پر ہدف تنقید بنا رہا۔
بچوں کے ساتھ زيادتی کے واقعات بلاروک ٹوک جاری رہے۔ ملک بھر سے رپورٹ ہونے والے ایسے کل واقعات میں سے 57 فیصد پنجاب سے رپورٹ ہوئے۔ مذہبی اقلیتوں کو پورا سال امتیازی سلوک کا سامنا رہا۔ مذہب کی بے حرمتی کے الزامات اور مذہب کی جبری تبدیلی کی اطلاعات منظرعام پر آتی رہیں۔ پولیس کے کوائف سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف پنجاب میں مذہب کی بے حرمتی کے 487 مقدمات درج ہوئے۔ خوش آئند پیش رفت یہ ہے کہ پنجاب حکومت نے سوشل میڈيا پر نفرت انگیز تقریر کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے جن کی بدولت محرم کے مہینے میں امن عامہ قائم رکھنے میں مدد ملی۔ ایسی4,000 سے زائد ویب سائٹس بند ہوئیں اور ان کے آپریٹرز کے خلاف فرقہ ورانہ تشدد کو ہوا دینے کے جرم میں کاروائی ہوئی۔
ستمبر 2020 میں لاہور- سیالکوٹ موٹروے پر ایک عورت کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی کے واقعے نے بڑے پیمانے پرعوام کے غم و غصّے اور مذمت کو جنم دیا، خاص طور پر لاہور پولیس کا سربراہ اپنے اس غیرمہذب بیان کے بعد ملامت کا نشانہ بنا کہ وقوعے کی براہ راست ذمہ دار متاثرہ عورت خود تھی۔عورتوں کے حقوق کے کارکنان نے عورت کی پاکدامنی کی تصدیق کے لیے ‘دو انگلیوں کے معائنے’ جیسے فرسودہ اور قابل مذمت قانون کو عدالت عالیہ لاہور میں چیلنج کرکے اہم کامیابی حاصل کی۔
چئیرپرسن حنا جیلانی کے ایماء پر