آر يو ڈی پی: کاروبار کے لیے نعمت، کسانوں کے لیے مصیبت؟
لاہور، 7 اپریل۔حال ہی میں جاری ہونے والی اپنی ایک فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے راوی ریورفرنٹ اَربن ڈیویلپمنٹ پراجیکٹ (آر یو ڈی پی) کے ماحول اور انسانی حقوق پر پڑنے والے منفی اثرات پر شدید تشویش ظاہر کی ہے۔
ماحولیاتی کارکنوں اور ماہرین سمیت سول سوسائٹی کے ساتھ ہونے والی مشاورتوں اور پراجیکٹ کے نتیجے میں زرعی زمینوں سے محروم ہونے والے دیہاتوں کے دوروں کے بعد، ایچ آر سی پی اِس نتیجے پر پہنچا ہے کہ حکومتِ پنجاب کے دعووں کے برعکس، آر یو ڈی پی ضرورت مند گھرانوں کو نہ تو سستی رہائش فراہم کرے گا اور نہ ہی اس سے مقامی ماحول کو تحفظ مل سکے گا۔ درحقیقت، پراجیکٹ کے نتیجے میں سینکڑوں غریب کسان اور اُن کے خاندان بے گھر ہو جائیں گے جن کے گزربسر کا واحد سہارازرعی پیداوار ہے۔ اس پراحیکٹ کی نوعیت مشکوک ہے اور اِس پر ہونے والی فیصلہ سازی میں صرف بالائی سطح کے حکومتی عناصر کی منشاء شامل ہے، لہذا سول سوسائٹی اور ماحولیاتی ماہرین نے اِسے بجا طور پر ہدفِ تنقید بنایا ہے۔
مزید برآں، پراجیکٹ کا ماحولیاتی اثرات کا جائزہ (ای آئی اے) کئی وجوہات کی بناء پر نقائص کا حامل ہے۔ اِن نقائص میں سے متعلقہ فریقین کے ساتھ مؤثر مشاورت کا فقدان، شور اور آبی و فضائی آلودگی کی سطحوں پر قابو پانے کے مبہم عزائم، اورپانی کے ذخائر کو صاف کرنے کے سستے متبادل ذرائع پر توجہ کی کمی نمایاں ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ راوی اَربن ڈیویلپمنٹ اتھارٹی نے پراجیکٹ کے نتیجے میں مقامی کسانوں کو ہونے والے نقصانات کو مکمل طور پر پسِ پشت ڈالا اور اُن کی نوآبادکاری اور اِنہیں متبادل ذریعہ معاش دینے کے لیے کوئی پائیدار حل پیش کرنے میں ناکام رہی۔ منصوبے میں مقامی لوگوں کی شمولیت کو یقینی بنانے کے بجائے، حکومت کسانوں کو بزورِطاقت اپنی زمینیں فروخت کرنے پر مجبور کر رہی ہے، اور اِس مقصد کے لیے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کو ترقیاتی کام میں شامل کیا گیا ہے اور لوگوں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے پولیس کو آلے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔اور اُن تحفظات کو ذرائع ابلاغ کی مناسب توجہ بھی نہیں مل پا رہی۔
ایچ آر سی پی کا مطالبہ ہے کہ اراضی کے مالکان سمیت تمام متعلقہ فریقین کے ساتھ مشاورت ہونے اور معاوضے کے معاملات کے تسلی بخش تصفیے تک، متاثرہ علاقے میں اراضی کے حصول سمیت تمام ترقیاتی کام روکا جائے۔ سب سے اہم یہ کہ اراضی پر زبردستی قبضے کا کوئی واقعہ پیش نہ آئے اور اراضی خریدنے کے لیے کسی قسم کا دباؤ استعمال نہ کیا جائے۔
رپورٹ یہاں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔
چئیرپرسن حنا جیلانی کے ایماء پر