پریس ریلیز
لاہور
27مئی ، 2016

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے اسلامی نظریاتی کونسل (سی آئی آئی) کی ان سفارشات کی مذمت کی ہے جن میں خواتین کے خلاف تشدد اور دیگر رجعت پسند ، غیر قانونی اور فضول تجاویز کو اس ’’ماڈل ‘‘ قانون کا حصہ بنانے کا مطالبہ کیا گیا ہے جس کا بظاہر مقصد خواتین کے حقوق کا تحفظ ہے۔
جمعہ کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کمیشن نے کہا: ’’ ایچ آر سی پی اسلامی نظریاتی کونسل(سی آئی آئی) کی خواتین پر ’’ہلکے تشدد‘‘ سے متعلق سفارشات پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا ، تاہم ہمارے خیال میں انسانی حقوق کا احترام کرنے والے ہر شخص کو ایسی تجویز کی شدید مذمت کرنی چاہئے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس اقدام کو خواتین کے تحفظ کے بل کا نام دیا جارہا ہے۔
’’ ماڈل قانون میں یہ قرار دیتے ہوئے کہ خواتین کو غیرت کے نام پر قتل نہیں کیا جانا چاہئے، بظاہر چیزوں کو متوازن کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ قانون انہیں شادی سے متعلق اپنی رائے دینے، جائیداد رکھنے اور اسے دوسروں کو منتقل کرنے کی’’ اجازت‘‘ بھی دیتا ہے۔ یہ انہیں سیاست میں حصہ لینے کی ’’اجازت‘‘ بھی دیتا ہے۔ ان دفعات کو پہلے ہی غیر ضروری قرار دیا جاچکا ہے کیونکہ یہ کئی دہائیوں سے فوجداری قانون اور آئینی طور پر تسلیم شدہ انسانی حقوق کی دفعات کا حصہ ہیں۔ پاکستان کی خواتین کو شکرکرنا چاہئے کہ انہیں ان حقوق کے حصول کی لئے سی آئی آئی کی جانب نہیں دیکھنا پڑا۔ اس مسودہ قانون میں ایسی کئی اور دفعات بھی ہیں جو کم مضحکہ خیز نہیں ہیں۔
یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ کوئی معقول آدمی یہ کیوں سوچے گا کہ پاکستان میں خواتین پر تشدد کی ترغیب کے لیے مزید حوصلہ افزائی یا کسی جواز کی ضرورت ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ لوگ حیران ہیں خواتین اور لڑکیاں ہی سی آئی آئی کے فتووں کا مرکز کیوں ہیں۔ یقیناًملک میں کئی اور بھی اہم معاملات ہوں گے جو سی آئی آئی کی توجہ کے طلب گار ہیں۔
’’ایچ آر سی پی یہ جاننا چاہتا ہے کہ سی آئی آئی کی طرف سے خواتین کو مسلسل نشانہ بنائے جانے، اُنہیں تابعدار صنف بنانے کی کوششوں اور خواتین کو معاشرے میں مساوی درجے سے محروم رکھنے کی سی آئی آئی کی کوششوں کا نوٹس کیوں نہیں لیا گیا۔
’’ہم پُر اُمید ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ اس بار چیزیں مختلف ہوں گی اور مسودہ قانون کو معاشرے کے تمام حلقوں، خاص طور پر حکومت کی شدید مذمت کا سامنا کرنا پڑے گا اور رجعت پسند سفارشات پر خاموشی اختیار کرنے والوں یا اُن کی حمایت کرنے والوں کے مؤقف کا نوٹس لیا جائے گا۔
’’یہ مسودہ قانون بظاہر پنجاب اسمبلی کے منظور کردہ خواتین تحفظ کا بل کا ردّعمل ہے۔ سفارشات سی آئی آئی پر قابض جنونیوں کے ذہن کی عکاسی کرتی ہیں جنہیں فوری طور پر اُن کے عہدوں سے برطرف کرنا چاہیے۔ درحقیقت ملک میں اسلام کے مناقی قانون سازی کی ممانعت کرنے والی مؤثر آئینی دفعات کی موجودگی میں یہ ادارہ بذات خود متروک اور بے سود ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اسے ختم کر دیا جائے۔

(زہرہ یوسف)
چیئر پرسن ایچ آرسی پی