انسانی حقوق کی بحث میں نئی جان ڈالنے کی ضرورت ہے: ایچ آرسی پی
اسلام آباد، 10 اپریل2019 ۔ اسلام آباد میں انسانی حقوق اورشراکتی جمہوریت پر اپنی قومی کانفرنس کے اختتام پر، پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آرسی پی) نے کہا ہے کہ ایسے حالات میں جبکہ انسانی حقوق کی تحریک سیاسی دھڑے بندیوں سے شدید متاثرہورہی ہے، انسانی حقوق کی بحث میں نئی جان ڈالنے کی اشد ضرورت ہے۔ کانفرنس میں اظہار، اجتماع اورانجمن سازی کی آزادی، وفاقیت، مذہب و عقیدے کی آزادی، اورقانون کی حکمرانی ودستورپسندی سے متعلق اہم معاملات پراظہارخیال گیاگیا۔ ایچ آرسی پی کی شریک چئیرپرسن عظمیٰ نورانی نے کہا کہ یہ پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے نازک وقت ہے اورایچ آرسی پی اپنی شریک بانی عاصمہ جہانگیرکی اقدارکی علمبرداری کا خواہاں ہے۔
کانفرنس کے آغازمیں اپنے اہم خطاب میں، ایچ آرسی پی کے اعزازی ترجمان، مسٹرآئی اے رحمان نے کہا کہ عوام کا حق ہے کہ ان پر جمہوری طریقے سے حکومت کی جائے۔ ان کا مزید کہنا تھاکہ سیاسی جماعتوں کو ایک نئے میثاق جمہوریت کے لیے مل بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ ایچ آرسی پی کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق نے کہا یہ انتہائی ضروری ہے کہ ‘ ہم پاکستان میں انسانی حقوق کو درپیش مشکلات کے بارے میں سچ بولتے رہیں’ ۔
‘ اختلاف رائے رکھنے والوں کی زبان بندی’ پرگفتگو کرتے ہوئے پہلے پینل نے کہا کہ ذرائع ابلاغ خوف و ہراس اورسیلف سنسرشپ کی بڑھتی ہوئی فضا میں کام کررہے ہیں،ان حالات میں انسانی جقوق کی صورت حال پرنظررکھنے اوران کے تحفظ کے لیے اظہار کی اورصحافت کی آزادی بہت ضروری ہے۔ حقوق کی حمایت میں رائے عامہ تشکیل دینے اورحقوق کی بنیاد پرپالیسی سازی کرنے کے لیے یہ کام ناگزیرہے۔ مقررین میں سینئرصحافی صلاح الدین، زاہدحسین، اورشہزادہ ذوالفقار، نشریاتی ذرائع ابلاغ کی صحافی منیزے جہانگیر اورعاصمہ شیرازی، اورڈیجیٹل حقوق کی کارکن فریحہ عزیز شامل تھیں۔
دوسرے پینل نے اس بات کا جائزہ لیا کہ اجتماع اورانجمن سازی کی آزادی کی کاوشوں کو خطرے کے طورپرکیوں لیا جاتا ہے ۔ مزدوروں، طالبعلموں، سول سوسائٹی اورسماجی تحریکوں کے لیے پیدا کی جانے والی تنگی پرنظرڈالتے ہوئے مقررین نے کہ ریاست ناقابل تنسیخ حقوق کو محدود کیوں کرنا چاہتی ہےاوریہ کہ ان حقوق کو مستحکم کرنے کے لیے کونسی حکمت عملیاں اپنائی جاسکتی ہیں تاکہ یہ حقوق معاشرے میں تبدیلی کا سرچشمے بن سکی۔ پینل میں بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے ملک نصیرشاہوانی، خویندو کور کی بانی اورچیف ایگزیکٹو مریم بی بی، وکیل اورانسانی حقوق کے کارکن جبران ناصر، عوامی ورکرزپارٹی کی رکن عالیہ امیرعلی اورساؤتھ ایشیا پارٹنرشپ- پاکستان کے ڈائریکٹرمحمد تحسین شامل تھے۔
کانفرنس نے شراکتی جمہوریت کے حق اوروفاق کو درپیش مشکلات جیسے اہم معاملات کو بھی اجاگرکیا۔ تیسرے پینل نے وفاقی ریاست کے طورپرپاکستان کی شناخت اور ریاست کی بقا کے لیے تنوع جمہوریت تشکیل دینے کی استعداد اورمنشاء پراظہارخیال کیا۔ سینیٹرفرحت اللہ بابر اورافراسیاب خٹک، اراکین قومی اسمبلی احسن اقبال، کشورزہرا اورمحسن داوڑنے زوردےکر کہا کہ اگروفاقی اکائیوں کے حقوق اورمفادات کو تحفظ دینا ہے تو پھر اٹھارہویں ترمیم کو واپس نہ لیا جائے۔
چوتھے پینل نےانسانی حقوق اورجمہوری شراکت کو ‘انتہاپسندی کے آسیب’ کے ہاتھوں لاحق خطرے پرروشنی ڈالی۔ مقررین نے بتایا کہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی قدامت پسندی ہاتھوں مذہب و عقیدے کی آزادی کے حق کو کس طرح تیزی سے سلب کیا ہے اوریہ کہ انتہاپسند سوچ و عمل کو معاشرے میں جو ‘قبولیت’ مل رہی ہے اس سے ہماری ریاست اورسول سوسائٹی کوکس طرح نبٹنا ہے ۔ مقررین میں وفاقی وزیرتعلیم و پیشہ ورانہ تربیت شفقت محمود، سابق رکن قومی اسمبلی بشریٰ گوہر، چیئرپرسن قومی کمیشن برائے حقوق نسواں خاورممتاز، سینئرصحافی اورمصنف احمد رشید، ایگزیکٹو ڈائریکٹر مرکز برائے سماجی انصاف پیٹرجیکب اور رکن قومی کمیشن برائے انسانی حقوق انیس ہارون شامل تھے۔ شفقت محمود نے کہا کہ حکومت نصاب پر نظرثانی کرنے کاارادہ رکھتی ہے تاکہ اس میں سے نفرت انگیز مواد نکالا جائے اوراس سلسلے میں انتہاپسندی کا تدارک ہوسکے۔
قانون کی حکمرانی اوردستورپسندی کے تحفظ پراظہارخیال کرنے والے آخری پینل نے اس چیز کا جائزہ لیا کہ جوابدہی، منصفانہ قانون سازی، کھلی حکومت اورتنازعات کے تصفیے کا ایسا نظام جو لوگوں کی پہنچ میں ہو، کی راہ میں سزا سے اسثنی کیوں حائل ہے۔ لاہورہائی کورٹ کی سابق جج جسٹس (ریٹائرڈ) ناصرہ اقبال، گلگت بلتستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدرامجدحسین، لاہورہائی کورٹ بارایسوسی ایشن کے سابق صدرڈاکٹرعابد ساقی، انسانی حقوق کی وکیل اورمساوی کی چیف ایگزیکٹو فاطمہ بخاری، انسانی حقوق کی وکیل اورایشیا سنٹربرائے تولیدی حقوق کی ایڈووکیسی مشیر سارہ ملکانی، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ اورایچ آرسی پی بلو چستان چیپٹرکے وائس چیئرحبیب طاہرپینل کا حصہ تھے۔
پی پی پی کی نائب صدراورسینٹ میں پی پی پی کی پارلیمانی رہنماء شیری رحمان نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ عوامی گفتگو کا رخ ‘ ان لوگوں کے تحفظ کی طرف مڑنا چاہیے جو غیرمحفوظ، محرومیوں کا شکارہیں اورامتیازی سلوک کا نشانہ بن رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ، حقوق کا ایجنڈا دوبارہ تشکیل دینا ہوگا۔اوریہ کام اتحادی جماعتوں کو پارلیمان کےلیے اورپارلیمان ہی کے ذریعے کرنا ہوگا تاکہ حقوق پرمبنی قانون سازی ممکن ہو سکے
سینئرایڈووکیٹ اورایچ آرسی پی کی کونسل رکن حنا جیلانی نے سیشن کی کاروائی کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق پرگفتگوجاری رکھنا ضروری ہے اورکانفرنس کا مقصد لوگوں کو اس محاذ پرسرگرم رہنے کے لیے ‘اکسانا’ ہے۔
ایچ آرسی پی نے اس امید کا اظہارکیا ہے کہ یہ کانفرنس انسانی حقوق کے مکمل احترام کو یقینی بنانے کے لیےقانونی و ادارہ جاتی اصلاحات، پالیسی سازی اوران کے نفاذ کے منصوبوں کے لیے ضروری شرائط پراتفاق رائے کا سبب بنے گی۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے معاملات کو اورزیادہ اجاگرکرنے کی اشد ضرورت ہے، اورآبادی کے زیادہ پسے ہوئے طبقوں کو بااختیاربنانے اوران کے مسائل کو حکومت ترجیحات میں شامل کرنے کے لیے جدوجہد کی بھی بہت زيادہ ضرورت ہے۔
ڈاکٹرمہدی حسن
چیئرپرسن