07-2017مارچ
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انسانی حقوق کی خواتین کارکنان کے کردار کو تسلیم کریں اور انہیں امتیازی سلوک، ایذادہی اور حملوں سے تحفظ فراہم کریں۔
منگل کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کمیشن نے کہا: ’’انسانی حقوق کی خواتین کارکنان کو انسانی حقوق کے دیگر محافظین جیسے خطرات کاہی سامنا ہے‘‘ تاہم خواتین ہونے کے باعث وہ زیادہ غیر محفوظ ہیں، خاص طور پر انہیں جنس سے متعلقہ تشدد یا دھمکیوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں، بشمول خواتین کارکنان کے ساتھ پاکستان کا معاندانہ رویہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔ مارچ 2016 میں، پاکستان نے اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کی قرارداد کے خلاف مہم چلائی تھی۔ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ معاشی، معاشرتی اور ثقافتی حقوق کے تحفظ کے لیے کوشاں انسانی حقوق کے محافظین کو بہتر تحفظ فراہم کیا جائے۔ اس سے قبل 2015ء میں، پاکستان 193 ریاستوں میں سے ان 14 ممالک کی فہرست میں شامل تھا جنہوں نے انسانی حقوق کے محافظین پر اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کی قرارداد کی مخالفت کی تھی۔ دیگر موقعوں پر بھی پاکستان نے اقوام متحدہ کی ان قراردادوں کی شدید مخالفت کی جن میں انسانی حقوق کی خواتین کارکنان کے بہتر تحفظ پر زور دیا گیا تھا۔
پاکستان میں ہرسال انسانی حقوق کے متعدد محافظین کو قتل کردیا جاتا ہے اور انہیں حملوں اور دیگر قسم کے خطرات یا ایذادہی کا بھی سامنا رہتا ہے۔ یہ امر حیران کن ہے کہ حکومت اب بھی یہی کہتی ہے کہ ’’انسانی حقوق کے محافظین‘‘ کوئی خاص گروہ نہیں ہیں اورانہیں ایک خاص قانونی حیثیت حاصل نہیں ہے۔ اس سے بھی بدتر یہ کہ حکومت کے اعلیٰ عہدیدار انسانی حقوق کے محافظین کو’غیر ملکی ایجنٹ‘ ، ’مغربی اقدار کے حامی‘، اور ’اسلام مخالف‘ قرار دیتے رہے ہیں۔ ایسے بیانات نہ صرف انسانی حقوق کے محافظین کے اہم کام کی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ یہ انہیں ایذادہی ،دھمکیوں اور حتیٰ کہ حملوں کے خطرے سے بھی دوچار کرتے ہیں۔
’’ پاکستان نے کئی بین الاقوامی فورمز پر ایک ’جمہوری اور ترقی پسند ملک ‘ ہونے کا دعویٰ اور ’ انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے فروغ اور تحفظ‘کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ حکومت کو اب انسانی حقوق، جمہوریت، اور قانون کی حکمرانی کے فروغ اور تحفظ میں انسانی حقوق کی خواتین کارکنان کے اہم اورجائز کردار کااعلانیہ طور پر اعتراف کرتے ہوئے اس حوالے سے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔حکومت کو اس بات کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ انسانی حقوق کی خواتین کارکنان کو ایک ایسا محفوظ اور مساوی ماحول فراہم کیا جائے جہاں وہ اپنی ذمہ داریاں بلاخوف انجام دے سکیں۔
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انسانی حقوق کی خواتین کارکنان کے کردار کو تسلیم کریں اور انہیں امتیازی سلوک، ایذادہی اور حملوں سے تحفظ فراہم کریں۔
منگل کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کمیشن نے کہا: ’’انسانی حقوق کی خواتین کارکنان کو انسانی حقوق کے دیگر محافظین جیسے خطرات کاہی سامنا ہے‘‘ تاہم خواتین ہونے کے باعث وہ زیادہ غیر محفوظ ہیں، خاص طور پر انہیں جنس سے متعلقہ تشدد یا دھمکیوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں، بشمول خواتین کارکنان کے ساتھ پاکستان کا معاندانہ رویہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔ مارچ 2016 میں، پاکستان نے اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کی قرارداد کے خلاف مہم چلائی تھی۔ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ معاشی، معاشرتی اور ثقافتی حقوق کے تحفظ کے لیے کوشاں انسانی حقوق کے محافظین کو بہتر تحفظ فراہم کیا جائے۔ اس سے قبل 2015ء میں، پاکستان 193 ریاستوں میں سے ان 14 ممالک کی فہرست میں شامل تھا جنہوں نے انسانی حقوق کے محافظین پر اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کی قرارداد کی مخالفت کی تھی۔ دیگر موقعوں پر بھی پاکستان نے اقوام متحدہ کی ان قراردادوں کی شدید مخالفت کی جن میں انسانی حقوق کی خواتین کارکنان کے بہتر تحفظ پر زور دیا گیا تھا۔
پاکستان میں ہرسال انسانی حقوق کے متعدد محافظین کو قتل کردیا جاتا ہے اور انہیں حملوں اور دیگر قسم کے خطرات یا ایذادہی کا بھی سامنا رہتا ہے۔ یہ امر حیران کن ہے کہ حکومت اب بھی یہی کہتی ہے کہ ’’انسانی حقوق کے محافظین‘‘ کوئی خاص گروہ نہیں ہیں اورانہیں ایک خاص قانونی حیثیت حاصل نہیں ہے۔ اس سے بھی بدتر یہ کہ حکومت کے اعلیٰ عہدیدار انسانی حقوق کے محافظین کو’غیر ملکی ایجنٹ‘ ، ’مغربی اقدار کے حامی‘، اور ’اسلام مخالف‘ قرار دیتے رہے ہیں۔ ایسے بیانات نہ صرف انسانی حقوق کے محافظین کے اہم کام کی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ یہ انہیں ایذادہی ،دھمکیوں اور حتیٰ کہ حملوں کے خطرے سے بھی دوچار کرتے ہیں۔
’’ پاکستان نے کئی بین الاقوامی فورمز پر ایک ’جمہوری اور ترقی پسند ملک ‘ ہونے کا دعویٰ اور ’ انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے فروغ اور تحفظ‘کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ حکومت کو اب انسانی حقوق، جمہوریت، اور قانون کی حکمرانی کے فروغ اور تحفظ میں انسانی حقوق کی خواتین کارکنان کے اہم اورجائز کردار کااعلانیہ طور پر اعتراف کرتے ہوئے اس حوالے سے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔حکومت کو اس بات کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ انسانی حقوق کی خواتین کارکنان کو ایک ایسا محفوظ اور مساوی ماحول فراہم کیا جائے جہاں وہ اپنی ذمہ داریاں بلاخوف انجام دے سکیں۔
زہرا یوسف
چیئر پرسن ایچ آرسی پی
چیئر پرسن ایچ آرسی پی