پریس ریلیز
لاہور
28اپریل 2014

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے انسانی حقوق کی بگڑتی صورتحال اور ان معاملات کو ترجیح نہ دےنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ کمےشن برائے انسانی حقوق کے کونسل اور سالانہ عمومی اجلاسوں کے اختتام پر جاری ہونے والے بےان میں کہا گےا کہ: ”پاکستان کمےشن برائے انسانی حقوق(اےچ آر سی پی) کی جنرل باڈی اور اےگزےکٹو کونسل اس امر پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہیں کہ گزشتہ سال اکتوبرمیں منعقد ہونے والے اجلاس سے لے کر اب تک چھ ماہ کے دوران انسانی حقوق کی صورتحال مےں کوئی بہتری نہیں آئی۔ اس کے علاوہ تشویش کی نئی وجوہات سامنے آئی ہےں۔ مندرجہ ذےل معاملات کی خاص طور پر نشاندہی کرناضروری ہے۔

1۔     اےسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کی کوئی سمت نہیں۔ واضح پالیسےوں کا فقدان ہے۔ ہمساےہ ممالک کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے علاقائی تناو¿ کو فوری طور پر ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اےچ آر سی پی حکومت کو ےہ تجویز پیش کرتا ہے کہ حکومت پلاننگ کمیشن کے کار منصبی کو وسعت دے تاکہ ےہ ملک کو درپےش سےاسی و سماجی مسائل کے حوالے سے اےک تھنک ٹےنک کے طور پر کام کر سکے اور اس حوالے سے واضح پالےسےاں اور حکمت عملی وضع کی جا سکے۔
2۔     انسداد دہشت گردی پالےسےوں کو شہرےوں کو نشانہ بنانے کی بجائے ان کا تحفظ کرنا چاہےے۔ قانون سازی سے متعلقہ اقدامات جن کا مقصد لاقانونےت اور دہشت گردی کا خاتمہ ہے، کے باعث ملزم کے حقوق سے متعلق خدشات مےں اضافہ ہوا ہے۔ ان خدشات کا جائزہ لےا جانا چاہےے اور چےلنجوں کے خاتمے سے متعلق قوانین من مانے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر مبنی نہےں ہونے چاہئیں۔

3۔     اےچ آر سی پی کو افسوس ہے کہ بلوچستان حکومت نے اس کے اےک انسانی حقوق کمیشن تشکیل دےنے کے مطالبے پر کوئی توجہ نہیں دی۔ ےہ تجویز پیش کی گئی تھی کہ کوئٹہ مےں اعزازی حےثےت سے اےک خود مختار انسانی حقوق کمشنر اور ہر ضلعے مےں انسانی حقوق کے افسران تعےنات کےے جائےں ۔ ےہ بات افسوس ناک ہے کہ اےچ آر سی پی کی توتک، جہاں اےک اجتماعی قبر درےافت ہوئی تھی، کا دورہ کرنے کی درخواست منظور نہیں کی گئی۔

4۔     اگرچہ گزشتہ سال دسمبر مےں دوسرے صوبوں سے پہلے بلدےاتی انتخابات کا انعقاد کرنے پر بلوچستان حکومت مبارکباد کی مستحق ہے تاہم منتخب کردہ افراد نے ابھی تک حلف نہیں لیا اور اس نظام کے فوائد لوگوں کی پہنچ سے دور ہےں۔ دےگر صوبوں نے تا حال ان اہم انتخابات، جو کہ اختےارات کو نچلی سطح تک منتقل کرتے ہیں اور لوگوں کے مسائل کو حل کرتے ہیں، کا انعقاد نہیں کےا۔ تاہم، اےچ آر سی پی بلوچستان حکومت کے دہشت گردی کے متاثرین، جن میں عام شہری شامل ہےں، کو معاوضہ فراہم کرنے کے فےصلے کا خےر مقدم کرتا ہے۔
5۔     اےچ آر سی پی دھونس اور قانونی کروائی کی دھمکےوں کے ذریعے مےڈےا کی آزادی کو سلب کرنے کی کوششوں پر تشویش کا اظہار کرتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اسے بڑے بڑے مےڈےا اداروں کے درمےان جاری الفاظ کی جنگ، جسے ےہ مےڈےا کی آزادی اور اس کی عسکری اسٹےبلشمنٹ پر تنقید کرنے کی قابلیت کی راہ مےں رکاوٹ تصور کرتا ہے، پر بھی سخت تشوےش ہے۔

6۔     مےڈےا اپنی ذی شعور بحث کی حوصلہ افزائی کرنے اور رواداری کی ثقافت کو فروغ دےنے کی ذمہ داری کو پورا کرنے مےں بھی ناکام ہو رہا ہے۔ کمیشن یہ سمجھتا ہے کہ وقت آ گےا ہے کہ پاکستان ٹےلی وےژن کواےک خود مختار ادارہ بناےا جائے۔

7۔     اےچ آر سی پی مالاکنڈ میں اےکشنز ان اےڈ آف سول پاور آرڈےننس کے تحت من مانی گرفتارےوں کی مذمت کرتا ہے۔ مالاکنڈ سے جبری گمشدگےوں اور زےر حراست اموات کی خبریں بھی موصول ہوئی ہےں، جس سے رےاستی قوت کے غلط استعمال کی نشاندہی ہوتی ہے۔

8۔     اےچ آر سی پی اےک مرتبہ پھر غےر مسلموں کی عبادت گاہوں پر حملوں کی مذمت کرتا ہے۔لاڑکانہ، تھرپارکر اور حےدر آباد مےںمندروں پر متعدد حملے کےے گئے۔اس کے ساتھ ساتھ کراچی مےں اےک ڈےڑھ سو سالہ مندر کو اےک نجی تعمیراتی کمپنی کی جانب سے انڈر پاس اور پلوں کی تعمیر کے باعث نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔ تضحیک مذہب قوانین کے ذریعے مذہبی اقلےتوں کو اذےتیں پہنچانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ وقت آ گےا ہے کہ حکومت اور پارلیمنٹ جرات کا مظاہرہ کرے اور ان قوانین مےں تبدیلی کے لےے بحث کا آغاز کرے۔
9۔     اقلےتوں کے عدم تحفظ کی عکاسی اس بات سے ہوتی ہے کہ ہزاروں افراد ملک چھوڑ کر جا چکے ہےں۔ مذہبی عدم رواداری مےںاضافے کے باعث لوگ اسلام قبول کرنے پر مجبور ہےں۔
10۔ تھرپارکر کی خشک سالی اور اس کی وجہ سے ہونے والی اموات خراب نظم ونسق علامت ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر باعث تشویش معاملات ہیں، جن میں بالائی سندھ میں اغواءبرائے تاوان کے علاوہ سندھی قوم پرستوںکے اغواءاور ماورائے عدالت قتل کے واقعات شامل ہیں۔

11۔لوگوں کو دہشت گردوں کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کی شرائط سے آگاہ نہیں کیا گیا، جس کے باعث ان خدشات میں اضافہ ہوا ہے کہ شہریوں کے حقوق، بالخصوص خواتین اور مذہبی اور فرقہ وارانہ اقلیتوں کے حقوق کی قیمت پر انہیں رعایت دی جاسکتی ہے۔

12۔جبری گمشدگیوں اور لاشیں پھینکنے کے واقعات کا دائرہ کار خیبرپختونخوا اور سندھ تک وسیع ہوگیا ہے۔ مجرموں کے لیے سزا سے استثنیٰ، جس کے بارے میں ایچ آر سی پی کا کہنا ہے کہ یہ ان واقعات میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے، کا خاتمہ کیا جائے اور تمام افراد کو جبری گمشدگیوں سے تحفظ فراہم کرنے کے بین الاقوامی میثاق کی توثیق کی جائے۔
13 ۔پاکستان میں بہت سے حلقوں کے لیے زندگی گزارنا بہت مشکل ہوگیا کہ سکیورٹی خدشات کے علاوہ معاشی مواقع کے فقدان کے باعث لوگ ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں۔
14۔مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کی بنیادی ضروریات زندگی، جن میں صحت، تعلیم اور خوراک شامل ہیں،تک رسائی ممکن نہیں رہی۔غریب لوگوں کی آمدنی میں اضافے کے لئے معیشت کو بحال کیا جائے تاکہ وہ باوقار طریقے سے بنیادی ضروریات کو پورا کرسکیں۔

15۔ایچ آر سی پی اس بات کا اعادہ کرتا ہے کہ فاٹا کو فوری طور پر مرکزی قومی دھارے میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اس حوالے سے غفلت برتنے پر نہ صرف اس مصائب کے شکار علاقے کے لوگوں کوبلکہ پورے ملک کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

16۔انسانی حقوق کا دفاع کرنے والے کارکنان کوبہت سے خطرات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ان کے لیے مسلح تصادم سے متاثرہ علاقوں، جن کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، میں کام کرنا یا رپورٹنگ کرنا مشکل ہورہا ہے،ان کی حفاظت اور کام میں آسانیاں پیدا کرنے کی جانب ترجیحی بنیادوں پر توجہ دی جائے۔
17۔ پولیو ورکرز پر حملہ اور ان واقعات میں اضافہ تشویش کا باعث ہے اور یہ طویل المعیادی اقدامات کا تقاضا کرتے ہیں جن میں ان علاقوں میں، جہاں لاقانونیت ویکسینیشن کی راہ میں رکاوٹ ہے، میں آگاہی مہم کا انعقاد کرنا اور حکومت کی رٹ قائم کرنا شامل ہے۔

(زہرہ یوسف)
چیئر پرسن ایچ آرسی پی