پریس ریلیز
لاہور
06-مارچ 2018

محمد جان، جو کہ جام ساقی کے نام سے مشہور تھے، کی وفات سے پاکستان اپنے ایک نامور شہری سے محروم ہوگیا ہے۔ انہوں نے اپنی 74سالہ زندگی میں سے تقریباًچھ دہائیاں عوام، خاص طور پر مظلوم طبقات کے حقوق کی جدوجہد میں بسر کیں۔اپنے کالج کے دنوں میں انہوں نے سندھی زبان کو اس کا جائز مقام دلانے کی جدوجہد میں شمولیت اختیار کی۔ انہوں نے ون یونٹ کے نفاذ کے خلاف بھی مہم چلائی۔ اس اسکیم کے خلاف ان کی تحاریر کو ضبط کرکے ان پر پابندی عائد کردی گئی۔
جام ساقی سندھ یونیورسٹی کے ان طلبہ رہنماؤں میں شامل تھے جنہیںیونیورسٹی کے معاملات میں مداخلت کے خلاف جہدوجہدکرنے پرگرفتارکیاگیاتھا۔ وائس چانسلرکی برطرفی بھی ان کے مطالبات کاحصہ تھی۔وہ خفیہ طورپرکام کرنیوالی کالعدم کمیونسٹ پارٹی پاکستان (سی پی پی) کے سرگرم رکن تھے اوراس کے سیکرٹری جنرل کے عہدے پربھی براجمان رہے۔جام ساقی نے سویت یونین اورچینی کمیونسٹ پارٹی کی اندھی تقلیدکرنے کی سی پی پی کی پالیسی کی مخالفت کی اورپارٹی کوجمہوری اصولوں پرکاربندرہنے کی تلقین کی۔انہیں ان کی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے گرفتارکیاگیااوربہیمانہ تشددکانشانہ بنایاگیا، اورریاست کے خلاف سازش کرنے کے الزام میں لاہورقلعہ کے بدنام زمانہ عقوبت خانے میں رکھاگیا۔ یہ ذوالفقارعلی بھٹوکے منتخب دورِحکومت میں مشہورحیدرآبادسازش کیس تھا۔نتیجتاً،انہیں 15 برس مختلف جیلوں میں گزارنے پڑے۔
جام ساقی کچھ برسوں تک پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کے کونسل رکن بھی رہے اورایچ آرسی پی کے کئی فیکٹ فائنڈنگ وفود کا حصہ رہے۔
ایچ آرسی پی جام ساقی کی وفات پردکھ کا اظہارکرنے کے علاوہ،عوام کے حقوق کی جدوجہد میں ان کے نمایاں کردارکا بھی معترف ہے۔ڈاکٹر مہدی حسن
چیئر پرسن ایچ آرسی پی