پریس ریلیز

لاہور

مارچ 30، 2018

ایچ آر سی پی احتجاجی لیڈی ہیلتھ ورکرز کا حامی ہے

 حکومت پنجاب نے 2012 میں صوبے میں 50,000 لیڈی ہیلتھ ورکرز کو مستقل کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا مگر چھ سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود اُس پر عملدرآمد کرنے میں ناکام ہے۔ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے پنجاب حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی اس کوتاہی کا جلد از جلد ازالہ کرے۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز پاکستان کے سرکاری شعبہ صحت کے لیے انتہائی اہم ہیں اور اُن میں سے بیشتر صوبے کے دور دراز و پسماندہ علاقوں اور انتہائی مشکل حالات میں لوگوں کو بنیادی طبی نگہداشت، خاندانی منصوبہ بندی اور ویکسی نیشن کی سروسز فراہم کر رہی ہیں۔

سینکڑوں لیڈی ہیلتھ ورکرز چیئرنگ کراس لاہور پر احتجاج کر رہی ہیں۔ اُن کا مطالبہ یہ ہے کہ اُنہیں کام کار کے سازگار حالات فراہم کیے جائیں۔ اِس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ روزگار کے حق میں ’کام کار کے منصفانہ اور سازگار حالات‘ اور ’بیروزگاری سے تحفظ‘ بھی شامل ہے، حکومت پنجاب کو چاہیے کہ وہ 2012 کے نوٹیفکیشن کا نفاذ کرے، ریگولر سروس اسٹرکچر تشکیل دے اور لیڈی ہیلتھ ورکرز کو اُن کے تمام واجب الادا بقایا جات ادا کرے اور اُنہیں احتجاج کرنے کی پاداش میں سزا دینے سے بھی اجتناب کرے۔ جن لیڈی ہیلتھ ورکرز سے ایچ آر سی پی کی ملاقات ہوئی اُنہوں نے بتایا کہ اُنہیں پانچ ماہ سے اُن کے واجبات نہیں دیے جا رہے اور تنخواہوں کے بقایا جات کا مطالبہ کرنے پر اُنہیں ملازمت سے برطرفی کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ کئی کا مطالبہ تھا کہ اُن سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ بغیر کسی چھٹی کے 24 گھنٹے ڈیوٹی دیں اور اگر وہ ڈلیوری کے بعض متعین اہداف پورے نہ کر سکیں تو اُنہیں ملازمت سے برطرف کر دیا جاتا ہے یا اُن کی تنخواہیں حذف کر دی جاتی ہیں۔ اُنہوں نے محکمہ صحت کے افسران پر یہ الزام بھی لگایا کہ وہ اُنہیں ’جعلی‘ خطوط کے ذریعے اُن کے مطالبات پر عملدرآمد کروانے کی یقین دہانیاں کرواتے ہیں مگر اُس کے بعد اُن کی طرف سے کوئی عملی کارروائی نہیں کی جاتی۔

اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ مسابقتی ماحول بہت ضروری ہوتا ہے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ کام کی سازگار فضا پر سمجھوتہ کر لیا جائے۔ عالمی ادارہ محنت کی تعریف کی رُو سے ’مناسب آمدنی‘ ، ’کام کے مقام پر تحفظ، اور ذاتی ترقی کے بہتر امکانات‘ کام کار کی سازگار فضا کا حصہ ہیں۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کو بہت کم معاوضہ ملتا ہے، احتجاج میں شریک خواتین کے مطابق، پنجاب میں اُنہیں 15000 روپے ماہانہ تنخواہ دی جاتی ہے اور جب وہ دور دراز علاقوں میں کام کر رہی ہوتی ہیں تو وہاں اُن کے تحفظ کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا۔

کئی لیڈی ہیلتھ ورکرز کے بقول ،عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے افسوسناک کردار نے بھی حکومت کو یہ شہہ دی ہے کہ وہ اپنی توجہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کے کام کے بُرے حالات اور تربیت کی کمی جیسے مسائل کی بجائے صرف اور صرف سروس کی فراہمی کے اہداف پر مرکوز ررکھے۔ پنجاب حکومت کو چاہیے کہ وہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کی شکایات کا موثر اور فوری ازالہ کرے۔

ڈاکٹر مہدی حسن

چیئر پرسن ایچ آرسی پی