ایچ آر سی پی ایذارسانی کو جرم قرار دینے سے متعلق بل کا خیرمقدم کرتا ہے
لاہور، 13 جولائی۔ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آرسی پی) ایذارسانی اور زیرحراست موت (روک تھام اور سزا) سے متعلق بل کی منظوری کا خیرمقدم کرتا ہے۔ یہ بل سینیٹ میں رُکن سینیٹ شیری رحمٰن نے پیش کیا اور وزیرانسانی حقوق شیریں مزاری نے اس کی حمایت کی۔
اس بات کے پیش نظر کہ پاکستان نے 2010ء میں ایذارسانی کے خلاف معاہدے کی توثیق کی تھی اور یہ بل ایک طویل عرصے سے زیرِالتوا تھا، اس بل کی منظوری اس مروجہ سرگرمی کو جرم قرار دینے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ اصولی طورپر، ایذارسانی کے خلاف قانون کو ضابطہ تعزیرات ِ پاکستان کا حصہ بنایا جانا چاہئے تھا۔ اس کے باوجود، یہ بات قابلِ غور ہے کہ اس بِل میں ایذارسانی کی جامع تعریف کی گئی ہے، اس میں حراستی جنسی تشدد کو حراستی تشدد کے دائرے میں شامل کیا گیا ہے، اور یہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کو ضروری بنیادی ڈھانچہ تشکیل دیے جانے کے بعد ایذارسانی کے واقعات کی تحقیقات کا اختیار دیتا ہے۔
تاہم، ایچ آر سی پی کو اس بات پر تشویش ہے کہ ایذارسانی سے متعلق جرائم کی شکایات کی تحقیقات کا بنیادی اختیاروفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے)کو دیا گیا ہے۔ شواہد ظاہر کرتے ہیں کہ ایف آئی اے خود ایذارسانی کی کارروائیوں میں ملوث رہا ہے اور اس کے موجودہ ڈھانچے میں اصلاح کی جانی چاہئے تاکہ یقینی بنایا جاسکے کہ یہ دیگر ریاستی ایجنسیوں کی ملی بھگت سے ایذارسانی کے استعمال کو فوجداری تحقیقات کے آلے کے طور پر استعمال نہ کرے۔
ایذارسانی کو سیاسی اختلاف رائے رکھنے والوں کو دھمکانے کے لئے استعمال کرنے کے حوالے سے پاکستان کی طویل تاریخ کو دیکھتے ہوئے، انسانی حقوق کے دفاع کاروں، صحافیوں اور ریاست کوسزا سے استثنا کے خاتمے کی غرض سے کی گئیں آئینی اصلاحات کے ذریعے، ایک ایسے کلچر کے خاتمے کا عہد کرنا چاہئے جو فوجداری نظامِ انصاف میں ایذارسانی کی حمایت کرتا ہے۔
چیئرپرسن حِنا جیلانی کے ایماء پر