ایچ آر سی پی نے یونیورسٹی میں طالبعلموں کی کڑی نگرانی کی مذمت کی ہے
اسلام آباد/کوئٹہ، 16 اکتوبر۔ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق(ایچ آر سی پی) کو اِن الزامات پر شدید تشویش ہے کہ بلوچستان یونیورسٹی کی انتظامیہ سے منسلک عناصر یونیورسٹی کی نگرانی کے لیے بنائی گئی ویڈیوز کو طالبعلموں کو ہراساں اور بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ ان میں ‘خفیہ’ کیمروں سے بنائی گئی ویڈیوز بھی شامل ہیں۔
ایچ آر سی پی کے کوئٹہ جانے والے ایک حالیہ فیکٹ فائنڈنگ مشن کو معلوم ہوا کہ یونیورسٹی کے احاطے میں تشویشناک حد تک کڑی نگرانی کا سلسلہ جاری ہے۔ بظاہر تو یہ کام سیکیورٹی کے نام پر کیا جا رہا ہے مگر حالیہ شکایات سے پتہ چلتا ہے کہ نگرانی کا یہ نظام طالبعلموں کو ہراساں کرنے کا آسان ترین ذریعہ بن سکتا ہے، جس کا خاص نشانہ عورتیں بنتی ہیں۔ ایچ آر سی پی کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ نگرانی کا نظام یونیورسٹی میں اخلاقیات کے اطلاق کی خود ساختہ ذمہ داری کو پورا کرنے اورطالبعلموں کی صفوں میں ممکنہ سیاسی سرگرمیوں میں خلل ڈالنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، اوریہ کام مبینہ طور پر فرنئٹئیرکورکے ایماء پر ہوتا ہے جو یونیورسٹی میں مستقل طور پر تعینات ہیں۔
یونیورسٹی میں خفیہ کیمرے نصب کرنے کا کوئي جواز نہیں بنتا۔ ایچ آر سی پی اُن طالبعلموں کی حمایت کا اظہارکرتا ہے جن کا کہنا ہے کہ یہ عمل اُن کی نجی زندگی میں میں مداخلت اورجبر کا ذریعہ ہے۔ ایچ آر سی پی کے خیال میں بلوچستان ہائی کورٹ کی طرف سے اس معاملے کا ازخود نوٹس لینا قابلِ تحسین اقدام ہے۔ کمیشن کی یونیورسٹی انتظامیہ سے بھی اپیل ہے کہ وہ اس میں ملوث لوگوں کی شاخت کرکے ان کے خلاف کارروائی کرے۔
چئیرپرسن ڈاکٹرمہدی حسن