پریس ریلیز
لاہور
08 —  مئی 2014

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کو اپنے ملتان ٹاسک فورس کے کوآرڈی نیٹر راشد رحمان ایڈووکیٹ کے قتل کا شدید افسوس ہے۔

مسٹر رحمان انسانی حقوق کے پُرعزم کارکن اور پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے اور ایچ آر سی پی کے ساتھ تقریباً 20 برسوں سے وابستہ تھے۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ 10 اپریل کو کمیشن نے ایک بیان کے ذریعے حکام کو آگاہ کیا تھا کہ ملتان ڈسٹرکٹ جیل میں جہاں راشد رحمان تضحیک مذہب کے ایک ملزم کی وکالت کر رہے تھے، اُنہیں وکلاءاستغاثہ کی طرف سے دھمکیاں دی گئی تھیں۔ مقدمے کی سماعت سکیورٹی خدشات کے باعث جیل میں کی جا رہی تھی۔ اطلاعات کے مطابق، جج نے اپنی موجودگی میں ملنے والی دھمکیوں کا کوئی نوٹس نہ لیا۔ تین افراد نے جج کی موجودگی میں وکیل صفائی راشد رحمان ایڈووکیٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ”آپ اگلی مرتبہ عدالت نہیں آئیں گے کیونکہ آپ اب مزید زندہ نہیں رہ سکیں گے۔“
یہ قابل افسوس امر ہے کہ ایچ آر سی پی یا مسٹر رحمان کے تحفظات پر کوئی توجہ نہ دی گئی اور راشد کو دھمکیاں دینے والے تین افراد کی گرفتاری کے لیے کوئی اقدام نہ کیاگیا۔ اس سے پہلے جاری ہونے والے ایک بیان میں ایچ آر سی پی نے مطالبہ کیا تھا کہ وکیل کو دھمکیاں دینے والے تینوں افراد کے خلاف بلاتاخیر قانونی کارروائی کی جائے اور وکیل صفائی کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے م¶ثر اقدامات کیے جائیں۔

ایچ آر سی پی کا مطالبہ ہے کہ راشد رحمان کو دھمکیاں دینے والے افراد کے خلاف فوری طور پر مقدمہ درج کیا جائے اور اُن کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔اگر اس اپیل کو نظر انداز کیا گیا کوئی بامعنی کارروائی نہیں کی جاتی تو یہ انسانی حقوق کی تحریک اور مسٹر رحمان کے اہل خانہ کے لیے انصاف کا مذاق اڑانے والی بات ہو گی۔

راشد رحمان نے ایک ایسے معاشرے میں تضحیک مذہب کے ملزم کی وکالت کرنے کا جرا¿تمندانہ فیصلہ کیا تھا جہاں متعصب لوگوں کے خیال میں ملزم کو دفاع کا کوئی حق نہیں ہے۔ اُن کی موت کی صورت میں، ایچ آر سی پی انسانی حقوق کے ایک پُرعزم اور بہادر کا رکن سے محروم ہو گیا ہے۔ مذہبی انتہا پسندی کی طاقتیں جنہیں ریاست اپنے قابو میں نہیں لا رہی، اِس اقدام سے معرکہ تو جیت سکتی ہیں مگر جنگ نہیں جیت سکتیں۔

(زہرہ یوسف)
چیئر پرسن ایچ آرسی پی