پریس ریلیز
لاہور
12-جون 2017
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے ہری پور میں ایک صحافی کے قتل جبکہ لاہور میں دوسرے کو قتل کی دھمکیوں اور ان پر ہونے والے بظاہر حملے کی شدید مذمت کی ہے۔
پیر کو جاری ہونے والے ایک بیان میں، کمیشن نے کہا:’’ ہمیں ہری پور میں ایک اردو اخبار کے چیف رپورٹر بخشش الہیٰ کی ٹارگٹ کلنگ اور لاہور میں ایک انگریزی اخبار کے چیف رپورٹر رانا تنویر پر ایک تیز رفتار گاڑی چڑھنے کی اطلاعات پر شدید تشویش ہے۔ رانا تنویر پر اس وقت گاڑی چڑھی جب وہ جمعہ کو لاہور میں منعقدہ پنجاب یونین آف جرنلسٹس کے اجلاس سے واپس آرہے تھے اور بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہیں گاڑی تلے روندنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مسٹر تنویر کی ٹانگ دو جگہوں سے ٹوٹ گئی ہے اور وہ ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ حالات وواقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تیز رفتاری کا اتفاقی واقعہ نہیں تھا۔
’’ ہری پور میں بخشش الٰہی کو قاتلانہ حملے سے تحفظ فراہم کرنے میں حکام کی ناکامی تو واضح ہے مگر مسٹر تنویر کی حالت زار بھی اتنی ہی تکلیف دہ ہے۔
’’اس میں کوئی شک نہیں کہ مسٹر تنویر عقیدے سے متعلقہ معاملات سمیت تمام امور پر غیرجانبدارانہ رپورٹنگ کے حوالے سے معروف ہیں۔ 30 مئی کو، لاہور میں ان کے گھر کے دروازے پر قتل کی دھمکیاں لکھی گئیں، اس کی بظاہر وجہ مذہبی اقلیتوں پرتشدد کے متعلق اُ ن کی رپورٹنگ ہے۔ پولیس کو ان دھمکیوں سے آگاہ کیا گیا تھا مگر دھمکیاں دینے والوں کی گرفتاری تو کُجا، ان کے خلاف مقدمہ تک درج نہ کیا گیا اور نہ ہی ان کی شناخت کے لیے کوئی قابل ذکر کوشش کی گئی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسٹر تنویر کو یہ مشورہ دیا گیا کہ وہ مجرموں کے خلاف مقدمہ درج نہ کروائیں بصورت دیگر وہ مشتعل ہوجائیں گے۔ لوگ یہ جاننا چاہیں گے کہ اب چونکہ مسٹر تنویر کی طبیعت سنبھل رہی ہے تو اس حالت میں حکام کے پاس اُن کے لیے کیا نصیحت ہے؟ اس قسم کی شدید دھمکیوں کی موجودگی میں بھی حکام کا غیر ذمہ دارانہ رویہ ناقابل یقین ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ اب مزید وقت ضائع نہ کریں اور مسٹر تنویر کے تحفظ کو یقینی بنانے کی اپنی ذمہ داری کو سنجیدہ لیں۔ ایچ آر سی پی پُرامید ہے کہ حکام اس نقطے کو سمجھیں گے کہ بعض اوقات جرم کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکامی اور اس میں ملی بھگت کے درمیان فاصلہ بہت کم رہ جاتا ہے۔
’’یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان میں کام کرنے والے صحافی برداری انتہائی مشکلات میں گھری ہوئی ہے جسے تمام اطراف سے خطرات کا سامنا ہے۔ پاکستان گزشتہ کئی برسوں سے اُن ممالک کی فہرست میں شامل ہے جو ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد کے لیے انتہائی خطرناک تصور کئے جاتے ہیں۔ یہ ان 10اقوام میں بھی بدستور موجود ہے جو صحافیوں کے خلاف جرم کا ارتکاب کرنے والی مجرموں کے خلاف قانونی کارروائی نہ کرنے کے حوالے سے دنیا کے دیگر تمام ممالک سے آگے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ مجرموں کو قانونی کارروائی سے تحفظ کی فضا سے صحافیوں کو ان کے کام کے باعث درپیش خطرات اورزیادہ سنگین صورت اختیار کرجاتے ہیں۔
’’ایچ آر سی پی کا حکام سے مطالبہ ہے کہ ان دونوں واقعات کے مجرموں کی گرفتاری کے لیے ہرممکن کارروائی کی جائے۔ ایسا کرنے میں ناکامی سے نہ صرف مجرموں کے حوصلے بڑھیں گے، بلکہ اس سے صحافی بھی شدت پسندوں کی ناراضگی اور اپنے کام سے متعلقہ تشدد سے بچنے کے لیے خودساختہ سنسر شپ اختیار کرنے پر مجبور ہوجائیں گیجبکہ اُن کے سرگرم کردار کی معاشرے کو جتنی اس وقت ضرورت ہے اتنی پہلے کبھی نہیں رہی۔
(ڈاکٹر مہدی حسن)
چیئر پرسن ایچ آرسی پی