بلوچستان سے اٹھائے جانے والوں کی گنتی کون کررہا ہے؟

لاہور، 24 دسمبر2018۔ انکوائری کمیشن برائے جبری گمشدہ افراد نے رپورٹ کیا ہے کہ 30 نومبر2018 تک اس کے پاس 2,116 حل طلب کیسز تھے، تاہم پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آرسی پی) کو فیلڈ سے ملنے والی اطلاعات پرشدید تشویش ہے جن کے مطابق اصلی تعداد بہت زیادہ ہے، اوراس سے بھی زيادہ اہم بات یہ ہے کہ جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو اتنی توجہ نہیں مل رہی جتنی ملنی چاہیے۔

آج جاری ہونے والے ایک بیان میں، ایچ آرسی پی نے کہا کہ ہم ان خاندانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہارکرتے ہیں جنہوں نے نومبرمیں پہلے کوئٹہ پریس کلب کے باہرکیمپ لگائے رکھا اورپھرانہیں اپنا دھرنا جاری رکھنے کے لیے وزیراعلی ہائوس کی طرف منتقل ہونے پرمجبورکیا گیا۔ وہ حکومت سے اس چیز کی یقین دہانی چاہتے ہیں کہ انہیں دہری قانونی کاروائی کا حق دیا جائے گا۔

‘ ایچ آرسی پی کے لیےیہ چیز بہت زیادہ تشویشناک ہے کہ جبری اٹھائے گئے لوگوں کے اہل خانہ کے لیے جو صورتحال پہلے ہی ناقابل برداشت تھی، اب اس نہج تک پہنچادی گئی ہے کہ وہ عورتوں، بچوں اوربوڑھوں کے ہمراہ کوئٹہ کے موسم سرما میں کھلے آسمان تلے خیمہ زن ہیں۔ ایچ آرسی پی کا کوئٹہ چیپٹر، کونسل ممبرز اوروائس چئیر باقاعدگی کے ساتھ دھرنے میں شریک ہوتے ہیں تاکہ جبری گمشدگیوں پرکمیشن کا مئوقف واضح ہو اورمتاثرین کے خاندانوں کے ساتھ  یکجہتی کا اظہار ہو۔

‘ایچ آرسی پی کے لیے یہ امرلائق تحسین ہے کہ حکومت نے مظاہرین کے مطالبات کو سننے کا وعدہ کیا ہے ، اوریہ جان کربھی کچھ حد تک اطمینان ملا ہے کہ مظاہرین وزیراعلی ہائوس سے واپس چلے گئے ہیں مگر کمیشن کا ریاست سے پرزورمطالبہ ہے کہ وہ جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو اس سے زیادہ سنجیدہ لے جتنا وہ اس وقت لے رہی ہے۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ریاست نے متاثرین کے اہل خانہ کی پریشانی کم کرنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ دیگرصوبوں جیسے کہ خیبرپختونخوا سےانسانی حقوق کے کارکنوں کو اظہاریکجہتی کے لیے دھرنے میں شریک ہونے سے روکنے کے باعث لوگوں کی فکراورغصے میں اضافہ ہواہے۔

‘ ایچ آرسی پی کا حکومت سے ایک بارپھرمطالبہ ہے کہ نہ صرف جبری گمشدہ لوگوں کا سراغ لگانے اورانہیں بازیاب کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں بلکہ اس امرکو یقینی بنایا جائے کہ لوگوں کو اٹھانے والوں کو سزاملے؛ جبری گمشگی جرم قرارپائے اور ملک کے عالمی فرائض اوراپنے عوام کے جانب اخلاقی ذمہہ داریوں کی روشنی میں اقوام متحدہ کے متعلقہ معاہدوں کی توثیق ہو۔’

ڈاکٹرمہدی حسن

چئیرپرسن