بلوچستان کو نظراندازکیے جانے کی روش جاری ہے
اسلام آباد، 2 اکتوبر۔ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آرسی پی) نے اپنے فیکٹ فائنڈنگ مشن کے دورہ بلوچستان کے بعد ”بلوچستان: تاحال نظرانداز” کے عنوان سے جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا ہے کہ سیاسی اعتبارسے، بلوچستان کے ساتھ اب بھی غیرمنصفانہ سلوک برتا جارہا ہے۔
لوگوں کو اٹھا کرغائب کرنے کا سلسہ جاری ہے: متاثرین کے اہلِ خانہ کے بقول، وہ عام طورپر حکام کو اپنے پیاروں کی جبری گمشدگی کے بارے میں بتانے سے ڈرتے ہیں۔ اس معاملے کا الم ناک پہلو یہ ہے کہ کئی علاقوں جیسے کہ ڈیرہ بگٹی اورآواران میں اب عورتیں بھی ‘ لاپتہ’ ہورہی ہیں۔ اس کے باوجود ایسے واقعات نہ تورپورٹ ہورہے ہیں اورنہ ہی ان کا کوئی ریکارڈ مرتب ہورہا ہے۔ ایچ آرسی پی کی تحقیقات سے یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ کوئلے کی سینکڑوں کانیں ایسے لوگ چلا رہے ہیں جن کے پاس کانوں میں حفاظتی اقدامات کرنے یا ہنگامی صورتحال سے نبٹنے کے لیے نہ تو مالیاتی وسائل ہیں اورنہ ہی ٹیکنیکل صلاحیت ہے۔ مشن کو پتہ چلا کہ سیکیورٹی فورسزفی ٹن پیداوارپرسیکیورٹی محصول وصول کرتی ہیں جوسرکاری طورپرلاگونہیں ہے ۔ اورکانوں کے مالکان اورمزدوریونینوں کی نظرمیں یہ بھتہ ہے۔ ایچ آرسی پی سمجھتا ہے کہ فرنٹئرکورکی بہت بڑی تعداد کی بلوچستان میں موجودگی اورصوبے کے معاملات پر بہت زیادہ کنٹرول صوبائی حکومت اورسویلین انتظامیہ کے لیے شدید نقصان کا سبب ہے۔ تعلیمی اداروں جیسے کہ بلوچستان یونیورسٹی میں سیکیورٹی اہلکاروں کی غیرضروری مداخلت اورمستقل موجودگی بھی ختم ہونی چاہیے۔
ایچ آرسی پی کا یہ بھی ماننا ہے کہ صوبے کے معاملات صوبائی حکومت اور سویلین انتظامیہ کوچلانے چاہیں اوران معاملات میں کسی اورادارے کی ناجائزمداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ اس کے علاوہ، جبری گمشدگیوں کو جرم قراردینے، مجرموں کو سزا دلوانے اورمتاثرین کے خاندانوں کی دادرسی کے لیے فوری طورپرقانون سازی کی جائے۔
یہ رپورٹ ایچ آرسی پی کی ویب سائٹ پردستیاب ہے۔
ایچ آرسی پی کے چئیرپرسن ڈاکٹرمہدی حسن کے ایماء پر