بلوچستان کی کوئلے کی کانوں کے محنت کشوں کو نظرانداز کرنے کا سلسلہ ترک کرنا ہو گا

کوئٹہ، 19 نومبر 2021۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن کو یہ جان کر شدید تکلیف ہے کہ  کوئلے کی کانوں کے کان کُن انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ پاکستان سنٹرل لیبر فیڈریشن کے مطابق، 2021 میں کانوں میں پیش آنے والے حادثات میں 176 کان کُن ہلاک جبکہ 180 زخمی ہوئے۔ اِس کے علاوہ، بلوچستان میں کان کُنوں کو غیرریاستی عناصر کے اہدافی حملوں کا سامنا بھی رہتا ہے۔

ٹیم نے جن کانُوں کا دورہ کیا وہاں سے ملنے والے حقائق سے معلوم ہوا کہ وہاں پر صحت کی سہولیات معمول کے بندوبست کی بجائے بہت کم نظر آئیں۔ اِس حقیقت کے پیشِ نظر کہ کوئلے کی کانوں کے شعبہ کو عالمی سطح پر ایک پُرخطر شعبے کا درجہ حاصل ہے، کانوں کے مالکان اور ٹھیکیداروں کو ہر ایک کان میں فعال ایمبولینس اور ہنگامی بنیادوں سے نبٹنے کے لیے صحت کے کارکنان کی دستیابی اور حفاظتی انتظامات کے اندرونی معائنوں کی باقاعدگی کو یقینی بنانا ہو گا۔جہاں تک حفاظتی انتظامات پر نظر رکھنے کے لیے بیرونی معائنوں کا تعلق ہے تو یہ حققیت بھی باعثِ تشویش ہے کہ صوبے میں چھ ہزار سے زائد کانوں کے معائنے کے لیے صرف 27 انسپکٹرز دستیاب ہیں۔

مشن کے عمومی نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ کان کُنوں کی اکثریت ای او بی آئی یا سماجی تحفظ کے دیگر منصوبوں کے لیے رجسٹرڈ نہیں ہیں، اور اُن کی رجسٹریشن کی ذمہ داری اُن کے آجروں پر عائد ہوتی ہے۔ اِس سے مراد یہ ہے کہ وہ ملازمت کے فوائد یا پنشن کے مستحق نہیں جس کی بدولت وہ اُس وقت انتہائی غیرمحفوظ حالت میں ہوں گے جب اُن میں کام کرنے کی سکت باقی نہیں رہے گی۔ یہ تحفظات بھی ہیں کہ بلوچستان میں ہلاکت اور ضرر کا معاوضہ کم ہے۔ بلوچستان میں یہ معاوضہ تین لاکھ روپے جبکہ ديگر صوبوں میں پانچ لاکھ روپے ہے۔

لیبر یونینوں کے کئی نمائندگان کا کہنا تھا کہ وہ کوئلے کی کانوں میں ٹھیکیداری نظام سے شدید ناخوش ہیں کیونکہ انہیں اپنے مزدوروں کی حفاظت و سلامتی کو یقینی بنانے میں بہت کم دلچسپی ہوتی ہے۔ اس کے بجائے وہ لاگت کی بچت میں زيادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہ امر بھی پریشانی کا سبب ہے کہ کئی کانوں میں ٹھیکیدار خود لیبر یونین کے نمائندگان کے طور پر کام کر رہے ہوتے ہیں جس سے مفادات میں ممکنہ تصادم کی صورت حال کی عکاسی ہوتی ہے۔

ایچ آر سی پی نے یہ سفارش بھی کی ہے کہ کوئلے کی کانوں کے شعبہ کو صنعت کا درجہ دیا جائے اور مالکان اور ٹھیکیداروں  کو  اپنی کانیں مائنز ایکٹ 1923 اور بعدازاں ہونے والی ترامیم کی مطابقت میں چلانے کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔ حکومت کو جتنی جلدی ممکن ہو سکے حفاظت و صحت پر آئی ایل او کنونشن 176 کی توثیق و اطلاق بھی کرنا ہو گا۔ہم ریاست سے یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ وہ خاص طور پر کوئلے کی کانوں والے علاقوں اور عام طور پر پورے صوبے میں صحت، تعلیم اور ڈھانچے کی تعمیر پر وسائل صرف کرے۔

جتنی جلدی ممکن ہوا مشن کی تفصیلی رپورٹ  بھی جاری کی جائے گی۔

حنا جیلانی

چیئرپرسن