لاہور۔04جولائی :اِس ہفتے پارلیمان میں منظور ہونے والے ”تحفظ پاکستان ایکٹ“ کو عوام کے حقوق پر بیہمانہ حملہ قرار دیتے ہوئے، پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے حکومت کی جانب سے جابرانہ ریاست کے نمونے کو دیدودانستہ اختیار کرنے کے عمل کی مذمت کی ہے۔
جمعہ کو یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کمیشن نے کہا؛ ”پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کو شدید افسوس ہے کہ پارلیمان ایک استبدانہ قانون سازی ، تحفظ پاکستان بل“ کی منظوری کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بطور آرڈی نینس اس تباہ کن قانون کے پہلے مسودے کے نفاذ سے لے کر اب آٹھ ماہ تک کا عرصہ اس سیاہ اقدام کو سفید بنانے کی جدوجہد میں صرف کیا گیاتھا۔اگرچہ سینٹ نے قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو تفویض کردہ اختیارات کے بے جا استعمال پر چند حدود وقیود عائد کی ہیں مگر یہ ایک کڑوی گولی کو انتہائی شیریں ظاہر کرکے پیش کرنے کے سوا اور کچھ نہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اب بھی یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی فرد کو مشتبہ ٹھہرا کر اس پر فائرنگ کردیں اور ان کے پاس لوگوں کو 60دنوں سے بھی زائد عرصہ تک زیرحراست رکھنے کا بے لگام اختیار موجود ہے۔
سکیورٹی ایجنسیوں کے اہداف کی فہرست میں ’جنگجوﺅں‘ اور ’باغیوں‘ جیسے الفاظ کے اضافے نے اس اقدام کو پہلے سے بھی زیادہ بھیانک کردیا ہے۔ مسودہ قانون کی ڈھیلی زبان اور حکومت کو شیڈویل میں نئے جرائم شامل کرنے کا اختیار دینے کے باعث اس قانون کے ناجائز استعمال کے خدشات میں اضافہ ہوگیا ہے، بالخصوص بلوچستان جیسے علاقوں میں جہاں سیاسی اختلاف کو طویل عرصہ سے بغاوت سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ایک ایسا قانون بنا کر جو عوام کے شہری حقوق کو براہ راست نشانہ بناتا ہے، حکومت نے انصاف اور جمہوریت دونوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو ’غیرملکی دشمنوں‘ کی بجائے معصوم عوام کے لیے زیادہ اذیت کا سبب بنے گا۔
ایچ آر سی پی کا جمہوریت اور انسانی حقوق کی پاسداری پر یقین رکھنے والوں سے مطالبہ ہے کہ وہ اُ س وقت تک اس اقدام کی مزاحمت کرتے رہیں جب تک حکام دانشمندی کا مظاہرہ نہ کریں اور اپنی غلطی کا ازالہ کرنے کی ضرورت محسوس نہ کریں۔
(زہرہ یوسف)
چیئر پرسن ایچ آرسی پی