پریس ریلیز
لاہور
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جبری یا غیررضاکارانہ گمشدگیوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کی سفارشات پر عملدرآمد کرے۔کمیشن نے متعلقہ حکام سے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ ورکنگ گروپ کی جانب سے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو پیش کی گئی تازہ ترین رپورٹ پر توجہ دیں۔
آج جاری ہونے والے بیان میں کمیشن نے کہا:
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو پیش کی گئی تازہ ترین رپورٹ میں جبری یا غیر رضاکارانہ گمشدگیوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ نے ایک مرتبہ پھر اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ حکومت پاکستان نے ان سفارشات پر عملدرآمد نہیں کیا جو ورکنگ گروپ نے 2012ء میں ملک کے دورے کے بعد پیش کی تھیں۔
ان میں مندرجہ ذیل سفارشات شامل تھیں:
* جرم کی تعریف کی بنیاد پر جبری گمشدگی کو ضابطہ تعزیرات میں جرم قرار دیا جائے جیسا کہ جبری گمشدگیوں سے متعلق اقوام متحدہ کے معاہدے میں کہا گیا ہے۔
* جبری یا غیررضاکارانہ گمشدگیوں سے متعلق تحقیقاتی کمیشن کے اراکین، عملے اور مالی وسائل میں اضافہ کرتے ہوئے اسے مضبوط بنایا جائے۔
* آزادی سے محروم کسی بھی شخص کو سرکاری طور پر منظور شدہ جگہ پر رکھاجائے۔
* انسانی حقوق کی پامالی کی صورت میں مشتبہ مجرموں کو معطل کیا جائے اور ان پر عام عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔
* جبری گمشدگی کے متاثرین کے خاندانوں کو مالی امداد فراہم کی جائے۔
* پاکستان کو تمام افراد کو جبری گمشدگیوں سے تحفظ فراہم کرنے کے معاہدے کی توثیق کرنی چاہئے۔
ورکنگ گروپ نے فروری 2016ء میں ’’کیسزکی ایک بہت بڑی تعداد‘‘سے متعلق معلومات فراہم کرنے پر حکومت پاکستان کا شکریہ ادا کیا ہے جس سے ورکنگ گروپ کے ساتھ کام کرنے کے حوالے سے حکومتی عزم کا اظہار ہوتا ہے۔ گروپ نے اپنے 109ویں اجلاس میں حکومتی نمائندوں کے ساتھ ہونے والی ملاقات کو بھی ’’مثبت‘‘ قرار دیا۔
تاہم ورکنگ گروپ کو اس بات پر تشویش ہے کہ رپورٹنگ کے عرصے کے دوران اس نے اپنے فوری کارروائی کے طریقہ کار کے تحت حکومت کو 321 نئے کیسز ارسال کیے جن کی ایک بڑی تعداد کا تعلق ان افراد سے تھا جنہیں صوبہ سندھ سے اغواء کیا گیااور جن کا تعلق متحدہ قومی موومنٹ سے تھا۔ ورکنگ گروپ اس بات کوپھر سے دہراتا ہے کہ جیسا کہ اعلامیے کی دفعہ 7 میں کہا گیا ہے، کسی بھی قسم کے حالات کو جبری گمشدگی کا جواز نہیں بنایا جاسکتا، اور یہ کہ ایسے شخص کے خاندان کے اراکین، اس کے وکیل یا کسی اور شخص کو جو ان معلومات میں جائز مفاد رکھتا ہو، فوری طور پر ایسے شخص کی حراست کے مقام یا مقامات، بشمول منتقلی سے متعلق درست معلومات فراہم کی جائیں گی(اعلامیے کی دفعہ10(2))۔
ورکنگ گروپ نے پاکستان سے متعلق اپنے مشاہدات میں کہا : ’’ ورکنگ گروپ ایک مرتبہ پھر اس بات پر افسوس کا اظہار کرتا ہے کہ حکومت نے عمومی الزامات میں تحفظ پاکستان ایکٹ سے متعلق بیان کردہ تحفظات کا جواب نہیں دیا جن کا اظہار اس نے 20نومبر 2015ء کو کیا تھا۔
ورکنگ گروپ ا س پورے عمل کے دوران تعاون کرنے پر حکومت پاکستان کا شکریہ ادا کرتا ہے ، لیکن یہ اس امر پر افسوس کا اظہار کرتا ہے کہ پاکستان سے متعلق رپورٹ میں پیش کی گئیں زیادہ تر سفارشات پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ ورکنگ گروپ امید کرتا ہے کہ اس کی سفارشات پر باقاعدہ اور فوری عملدرآمد کیا جائے گا۔
1980 میں اپنے قیام سے لے کر اب تک ورکنگ گروپ نے 107 ریاستوں کو کل 55,273 کیسز بھجوائے ہیں۔ 18 مئی 2016 کو 91 ریاستوں میں ایسے کیسز کی تعداد 44,159 تھی جن کا گہرائی سے جائزہ لیا جا رہا تھا۔
حالیہ رپورٹ میں 16 مئی 2015 سے 18 مئی 2016 تک ورکنگ گروپ کی جانب سے کی گئی سرگرمیاں، مراسلے اور ایسے کیسز شامل ہیں جن کا جائزہ لیا گیا تھا۔
زیر نظر عرصے کے دوران، پاکستان سمیت کئی حکومتوں کے نمائندے ورکنگ گروپ کے اجلاسوں میں شریک ہوئے۔ علاوہ ازیں، برونڈی، مصر، جاپان، مالدیپ، مراکش، سوڈان اور یوکرین کی حکومتیں شامل تھیں۔
رپورٹنگ کے عرصے کے دوران، ورکنگ گروپ نے 37 ریاستوں کو 766 نئے کیسز منتقل کیے۔ ان میں سے 463 کیسز 20 ریاستوں کو فوری اقدام کے طریقہ کار کے تحت بھیجے گئے تھے۔
ورکنگ گروپ نے 17 ریاستوں سے متعلق 161 کیسز نبٹائے۔ ان 161 کیسز میں سے 67 کو حکومتوں کی طرف سے فراہم کردہ معلومات جبکہ 94 کو ذرائع کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر نبٹایا گیا تھا۔
پاکستان اُن ممالک میں شامل ہے جنہیں ورکنگ گروپ نے انسانی حقوق کے محافظین اور گمشدہ افراد کے اہل خانہ کو ہراساں کرنے اور / یا اُنہیں دھمکیاں دینے کے الزامات پر فوری کارروائی کرنے کی درخواست کی۔ دیگر ممالک میں بنگلہ دیش، سنٹرل افریقن ریپبلک، چین، کولمبیا، کانگو، گوئٹے مالا، ہندوستان، عراق، میکسیکو، سربیا اور وینزویلا شامل تھے۔
پاکستان اُن سات ممالک میں بھی شامل تھا جنہیں ورکنگ گروپ نے گمشدگیوں کے اعلامیے کے نفاذ سے متعلقہ رکاوٹوں کے عمومی الزامات بھی منتقل کیے تھے۔ دیگر ممالک میں بنگلہ دیش، کیمرون، کولمبیا، مصر، کینیا اور یوراگوئے شامل تھے۔
ورکنگ گروپ نے دو ایسے افراد سے متعلق فوری اپیلیں بھی ارسال کی تھیں جنہیں ایتھوپیا اور عراق میں گرفتار کیا گیا، زیر حراست لیا گیا یا انہیں اُن کی آزادی سے محروم کیا گیا تھا یا جنہیں جبری طور پر گمشدہ کیا گیا تھا یا وہ جبری گمشدگی کے خطرے سے دوچار تھے۔
ورکنگ گروپ نے جمہوری ریپبلک کانگو، گیمبیا، گوئٹے مالا، اٹلی، مراکو، پاکستان، پرتگال اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی حکومتوں کو جبری گمشدگی سے متعلق معاملات کے بارے میں آٹھ خطوط ارسال کیے تھے۔
ورکنگ گروپ نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ جبری گمشدگی کے واقعات میں دنیا بھر میں اضافہ ہو رہا ہے; اور ان کے پس پشت یہ باطل اور خطرناک سوچ کار فرما ہے کہ جبری گمشدگیاں قومی سلامتی کے تحفظ اور دہشت گردی یا منظم جرم سے نبٹنے کاکارآمد ذریعہ ہیں۔ اس افسوسناک حقیقت کی عکاسی اس چیز سے بھی ہوئی ہے کہ ورکنگ گروپ نے رپورٹنگ کے عرصے کے دوران 37 ریاستوں کو گمشدگی کے 766 کیسز ارسال کیے۔ گروپ نے ان میں سے 483 میں فوری کارروائی کا طریقہ کار استعمال کیا جو کہ ورکنگ گروپ کی رپورٹ کے اجراء سے تین ماہ قبل پیش آئے تھے۔ رپورٹنگ کے عرصے کے دوران فوری کارروائی سے متعلقہ ارسال کردہ اپیلوں کی تعداد گزشتہ برس کی سالانہ رپورٹ میں درج ایسی اپیلوں سے تین گنا سے بھی زیادہ ہے۔ یہ انتہائی تشویشناک امر ہے۔‘‘
ورکنگ گروپ نے مزید کہا: ’’رپورٹنگ کے عرصے کے دوران مصر اور پاکستان کو ارسال کردہ فوری کارروائی کی اپیلیں لمحہ فکریہ ہیں۔ ورکنگ گروپ نے اس امر کو قابل تحسین قرار دیا کہ دونوں حکومتوں نے ورکنگ گروپ کے ساتھ بامعنی مذاکرات کیے تھے اور گروپ کے ساتھ تعاون کیا تھا اور اُسے کیسز سے متعلقہ معلومات بھی فراہم کی تھیں۔
گروپ نے اپنی رپورٹ کے اختتام میں کہا ’’جن ریاستوں نے ابھی تک ’تمام افراد کو جبری گمشدگی سے تحفظ فراہم کرنے کے عالمی میثاق‘ پر دستخط نہیں کیے اور یا توثیق نہیں کی، اُن سے ایک بار پھر مطالبہ کیا جاتا ہے کہ جتنا جلد ممکن ہو سکے میثاق پر دستخط اور / یا اُس کی توثیق کریں۔ اُن سے یہ مطالبہ بھی کیا جاتا ہے کہ کمیٹی برائے جبری گمشدگان کو میثاق کی دفعہ 31 کے تحت انفرادی کیسز جبکہ دفعہ 32 کے تحت ریاستوں کے مابین شکایات وصول کرنے کا جو اختیار حاصل ہے، اُسے بھی تسلیم کریں۔
(آئی۔ اے۔ رحمن)
سیکرٹری جنرل