جبری گمشدگیوں کاخاتمہ کیا جائے
لاہور، 30 اگست : جبری گمشدگیوں کے متاثرین کے عالمی دن کے موقع پر، پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق(ایچ آر سی پی) حکومت کو جبری گمشدگیوں کو جرم قراردینے کے اس کے وعدے کی یاد دہانی کراتا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 2018 کے فیصلے کی مطابقت میں، نہ صرف اس ظالمانہ سرگرمی کو ایک واضح اورخود مختارجرم قراردیا جائے اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے بلکہ متاثرین اور ان کے خاندانوں کو معاوضہ بھی ادا کیا جائے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس فیصلے میں جبری گمشدگیوں کو بجا طور پر انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا تھا۔
یہ امر شدید تشویش کا باعث ہے کہ بہت سے متاثرین اداروں یا جبری گمشدگیوں میں ملوث افراد کی جانب سے انتقامی کارروائی کے خوف کے باعث کسی کی مدد حاصل کرنے یا اپنے کیسز کی تشہیر سے ڈرتے ہیں۔ ایچ آر سی پی کا یہ دیرینہ موقف رہا ہے کہ سرکاری اعدادوشمارمیں جبری طور پر گمشدہ افراد کی تعداد بہت کم بتائی جاتی ہے جس سے جبری گمشدگیوں سے متعلق تحقیقاتی کمیشن کے مؤثر پن کے بارے میں سوالات جنم لیتے ہیں۔
اگرچہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر دین محمد جیسے متاثرین 11 سال کے طویل عرصے سے لاپتا ہیں، تاہم یہ رجحان بھی پریشان کن ہے کہ کئی افراد کو مختصر سے عرصے کے لیے جبری طور پر لاپتا کیا جاتا ہے اور پھر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ایسے کئی واقعات میں انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اپنا کام جاری رکھنے سے روکا گیا، چاہے اس کا تعلق قوم پرست تحریکوں سے ہو، انسانی حقوق کی جدوجہد سے ہو، یا پھر تنقیدی صحافت سے۔ ایچ آر سی پی مطالبہ کرتا ہے کہ جبری گمشدگیوں کے حوالے سے 2010 میں قائم کیے گئے عدالتی کمیشن کے مشاہدات منظرعام پر لائے جائیں اور جری گمشدگیوں سے متعلق تحقیقاتی کمیشن کی ایک ایسے آزادانہ ٹرائبیونل کے طور پر تشکیل نو کی جائے جومحض تحقیقات نہیں بلکہ انصاف فراہم کرنے کے بھی قابل ہو۔
چیئرپرسن ڈاکٹر مہدی حسن کی ایماء پر