جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج کرنا جرم نہیں ہے: ایچ آرسی پی

لاہور، 10 مئی 2019۔ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آرسی پی) نے کہا ہے کہ لاپتہ شیعہ افراد کے رشتہ داروں کی کمیٹی نےاپنے عزیزواقارب کے ساتھ ہونے والے سلوک کا پتہ لگانے کے لیے حال ہی میں جو احتجاجی دھرنا دیا  اُس پرریاست نے بُرے ردِعمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایچ آرسی پی نے کراچی کی شیعہ برادری کے لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار بھی کیا اورکہا کہ ‘باضابطہ قانونی کاروائی کا حق سب سے مقدم ہے’۔ گوکہ پولیس کا دعویٰ ہے کہ پانچ لوگوں کو’ ریاست مخالف سرگرمیوں کے شبہ میں گرفتارکیا گیا تھا کمیٹی کا کہناہے کہ وہ لوگ بے قصورہیں اوراس معاملے کی منصفانہ اورشفاف تحقیقات ہونی چاہیے۔

‘ایچ آرسی پی کو لاپتہ افراد کے عزیزواقارب کے خلاف کریک ڈاؤن پرتشویش ہے جس میں کم ازکم 36 لوگ گرفتارکیے گئے۔ ان پرمتعدد الزامات عائد کیے گئے جن کا دائرہ ‘فساد برپا کرنے’ سے لے کر ‘ پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑنے’ تک پھیلا ہوا ہے۔ اگرچہ گرفتار ہونے والے کئی لوگوں کو چھوڑ دیا گیا ہے تاہم یہ الزامات مضحکہ خیز ہیں کیونکہ مظاہرین کے پاس اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے اجتماع کا مکمل حق تھا۔ جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج کا جواب شک و شبےکے اظہاراوردھونس سے دینا ریاست کے افسوسناک طرزِعمل کی عکاسی کرتا ہے۔

سب سے بڑھ کر یہ کہ اِس سب کچھ کے باوجود شیعہ برادری اوربلاشبہ دیگربرادریوں اورعلاقوں کے کئی افراد کے حال احوال کے بارے میں ابھی تک کچھ پتہ نہیں چل سکا ۔ ایچ آرسی پی کا ریاست سے ایک بارپھرمطالبہ ہے کہ جبری گمشدگیوں کو بلاتاخیرجرم قراردیا جائے جس کا ریاست نے کُھلے عام عہد کیا تھا اوریہ کام کرتے وقت سول سوسائٹی کی سب تنظیموں کو اعتماد میں لیا جائے۔’

مہدی حسن

چئیرپرسن