پریس ریلیز
جبری گمشدگی کے نتیجے میں تمام حقوق چھن جاتے ہیں
لاہور، 30 اگست2018۔ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے ایک بارپھرمطالبہ کیا ہے کہ حکومت جبری گمشدگیوں کو جرم قرار دے۔ آج جبری گمشدگیوں کے متاثرین کے عالمی دن پر جاری ہونے والے اپنے ایک بیان میں ایچ آرسی پی نے کہا، ‘ اگرچہ ہم جبری ‘گمشدہ’ افراد اوران کے عزیزواقارب کے ساتھ ہمدردی کا اظہارکرتے ہیں، یہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہانسانی حقوق کے تناظرمیں دیکھا جائے تو ‘لاپتہ افراد’ کی اصطلاح استعمال کرنے سے اس معاملے کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔
‘جبری گمشدگی سے مراد آزادی، تحفظ اورزندگی کے حق سے محرومی ہے۔ جبری گمشدہ ہونےوالا فرداذيت رسانی یا غیرانسانی یا تضحیک آمیز سلوک سے تحفظ اورساتھ ہی شفاف ٹرائل یا مئوثرریلیف کے حق مکمل طورپرمحروم ہوجاتا ہےجبکہ اس کے عزیزواقارب اوردیگرعام لوگ اس کا حال احوال جاننے کے حق سےمحروم ہوجاتے ہیں۔
‘سرکاری اعدادوشمار اور زمینی حقائق کے درمیان پائے جانے والے تضاد کےپیش نظر، ہمارے پاس اس وقت لاپتا افراد سے متعلق معتبر اعداد و شمار موجود نہیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ حکومت اس مسئلے کو نظرانداز کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ ایچ آر سی پی مطالبہ کرتا ہے کہ حکومت جبری گمشدگیوں کو ضابطہ تعزیرات کے تحت جرم قرار دے اور جبری گمشدگیوں سے متعلق تحقیقاتی کمیشن کی جگہ ایک عدالتی ٹریبیونل تشکیل دے جو سپریم کورٹ کو جوابدہ ہو۔ جبری گمشدگیوں سے متعلق 2010ء کے عدالتی کمیشن کے حقائق کو منظرعام پر لایا جائے اور ان پر عمل درآمد کیا جائے۔ وقت کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ پاکستان تمام افراد کو جبری یا غیر رضاکارانہ گمشدگیوں سے تحفظ فراہم کرنے کے بین الاقوامی معاہدے کی توثیق کرے، اور جبری یا غیر رضاکارنہ گمشدگیوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کے ساتھ مل کر کام کرے۔’
ڈاکٹرمہدی حسن
چیئرپرسن، پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق