پریس ریلیز
لاہور
09 دسمبر، 2015
اگر حکومت اور کاروباری حلقے یورپی یونین کی طرف سے پیش کردہ سہولتوں سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو پھر انہیں بلاتاخیر اور اتفاق رائے کے ساتھ جی ایس پی پلس کی شرائط پر عملدرآمد شروع کردینا چاہئے۔ یہ اتفاق رائے جی ایس پلس پر پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کے زیر اہتمام منعقدہ دوسرے مشاورتی اجلاس میں سامنے آیا۔
ممتاز اقتصادی ماہر ناصر جمال نے اجلاس کو ان اقدامات کے بارے میں آگاہ کیا جو حکومت اور ٹریڈ چیمبرز نے اس سلسلے میں اب تک کئے ہیں۔ اس حوالے سے حکومت اور ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کرنے والے اداروں نے جو اقدامات کئے ہیں، انہوں نے ان کی تعریف کی۔ ساتھ ہی انہوں نے ان کے درمیان نہ صرف وفاقی اور صوبائی سطح پر بلکہ ضلعی سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے پر زور دیا۔ اس لیے کہ کوئی ادارہ اپنے طور پر جی ایس پی پلس کی شرائط کو پورا نہیں کرسکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سرکاری سطح پر چلائی جانے والی مہم اس وقت تک موثر نہیں ہوسکتی جب تک صنعتی مزدوروں کی کوششیں اس میں شامل نہ ہوں۔
مزدور نمائندوں نے مزدوروں کا استحصال کرنے اور انہیں ان کے حقوق نہ دینے کے حوالے سے حکومت اور آجروں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ انہوں نے کہا کہ ٹریڈ یونینوں کو دبایا جارہا ہے، مزدوروں کی اجرتیں نہایت کم ہیں، انہیں کم سے کم اجرت نہیں دی جارہی۔آجر اورای او بی آئی ان کی پنشن کے بارے میں صحیح حساب کتاب کرنے سے انکاری ہیں۔ اگر مزدوروں کے حقوق کا احترام کیا گیا تو وہ جی ایس پی پلس کے مقاصد حاصل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی فیڈریشن اور لاہور چیمبر آف کامرس کے نمائندے جمیل ناز نے شکایت کی کہ زندگی کے کسی شعبہ میں دیانتداری اور سنجیدگی باقی نہیں رہی۔ اس کے علاوہ زندگی کے تمام شعبوں کو کرپشن نے تباہ کردیا ہے، غلط ترجیحات نے پاکستان کو اقتصادی شعبہ میں اس کے حصہ سے محروم کردیا ہے۔
اجلاس میں عمومی طور پر اتفاق پایا گیا کہ یہ پاکستانی عوام کے مفاد میں ہے کہ انسانی حقوق، لیبر کے حقوق، ماحولیات اور کرپشن سے متعلق 27انٹرنیشنل معاہدوں پر عملدرآمد کیا جائے۔ شہری اور سماجی ترقی کے ماہررضا علی نے کہا کہ پاکستان کو 27معاہدوں پر پوری طرح عملدرآمد کرنا چاہئے، ان معاہدوں پر عملدرآمد کے لئے قانون سازی کی جائے جن کی رسمی توثیق کی گئی اور اس مقصد کے لیے کاروبار اور صنعتوں کے شعبوں کا تعاون حاصل کیا جانا چاہئے۔ سینئر استاد اور انسانی حقوق کے متحرک کارکن ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ جی ایس پی پلس کے مقاصد کو اسی وقت پورا کیا جاسکتا ہے جب ملک میں بہترحکمرانی ہو اور سیاسی جماعتیں اس قابل ہوں کہ ملک میں ایک سیکولرنظام قائم کرسکیں۔ یہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے ریاست کو اس قابل بنایا جاسکتا ہے کہ وہ لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرسکے۔
اجلاس کے شرکاء کا خیر مقدم کرتے ہوئے پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کے سیکرٹری جنرل مسٹر آئی۔ اے۔ رحمٰن نے بتایا کہ کمیشن کا مقصدحکمرانوں اور کاروباری حضرات کو باور کرانا ہے کہ جی پیس پی پلس سے کیسے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ کس طرح 27معاہدوں میں دیئے گئے حقوق حاصل کرکے لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ اجلاس کے شرکاء نے اس تجویز سے اتفاق کیا کہ جی ایس پی پلس کی کامیابی عوامی حمایت کے ذریعے ہی ممکن ہے اور اس کے لیے عوام میں آگاہی پیدا کرنا بے حد ضروری ہے۔ اس کے علاوہ آجروں اور اجیروں کے درمیان خوشگوار تعلقات قائم کرنا بھی ضروری ہے۔ اجلاس میں ماہرین، مزدور رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے شرکت کی۔
(زہرہ یوسف)
چیئر پرسن ایچ آرسی پی