حکومتی رد عمل لائق تحسین ہے، مگررپورٹ کے نتائج حقائق پرمبنی ہیں
اسلام آباد/لاہور، 3 مئی۔ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے اپنی سالانہ رپورٹ٢٠١٩ میں انسانی حقوق کی صورت حال پر وزارت انسانی حقوق کے باضابطہ رد عمل کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ وزارت کے بیان میں تسلیم کیا گیا ہے کہ ایچ آر سی پی نے بعض اہم معاملات اجاگر کیے ہیں۔ حکومت اورانسانی حقوق کے خودمختاراداروں کے درمیان بامعنی میل جول کے لیے یہ ایک حوصلہ افزاء پیش رفت ہے۔
البتہ، وزارت کے رد عمل میں حقائق سے متعلق چند غلطیاں ہیں جن کی درستگی ضروری ہے۔ وزارت کے مشاہدات کے برعکس، رپورٹ میں بچوں سے زیادتی کے خاتمے کے تناظر میں زینب الرٹ، ریکوری و ریسپانس بل ٢٠١٩ کا خاص ذکر کیا گیا ہے(صفحات نمبر٧،٢٣٠) ۔ مارچ ٢٠٢٠ میں اس بل کی منظوری ہوئی تھی جس کا ذکر ایچ آر سی پی کی٢٠٢٠ کی رپورٹ میں کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ، رپورٹ میں اُس کمیشن کا حوالہ موجود ہے جو قیدیوں کی شہری آزادیوں کے مشاہدے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر تشکیل دیا گیا تھا (صفحہ ٢١٦)؛ ایچ آر سی پی کے دو سینئیر اراکین بھی اس کمیشن کا حصہ ہیں۔ آسیہ بی بی اور وجیہہ الحسن کی توہین رسالت کے مقدمات میں رہائی بھی رپورٹ کا حصہ ہے (صفحات ١٢، ٤٠ اور ٢٠٩)، اور کرتارپور راہداری کھُلنے کا بھی ذکر کیا گیا ہے (صفحات ١٠، ٣٣ اور٦٣)۔ اسی طرح، صحافیوں اور ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد کے تحفظ کا ایکٹ ٢٠٢٠ میں منظور ہو گیا تو اُسے بھی پوری طرح تسلیم کیا جائے گا۔
ایچ آر سی پی کی رپورٹ میں سال ٢٠١٩ کے دوران وفاق کے زیر انتظام علاقوں اور صوبوں میں انسانی حقوق کی صورت حال کی مجموعی تصویر پیش کی گئی ہے نہ کہ صرف کسی ایک سرکاری وزارت کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا ہے۔ کمیشن کی اس کاوش کا واحد مقصد ریاست اور موجودہ حکومت کو اُن کی آئینی ذمہ داریوں اور عالمی وعدوں کی یاددہانی کروانا ہے۔ ایچ آر سی پی اپنی رپورٹ کے نتائج پر قائم ہے اور امید کرتا ہے کہ حکومت اُن تحفظات کا ازالہ کرے گی جنہیں رپورٹ میں اجاگر کیا گیا ہے۔
چئیرپرسن ڈاکٹر مہدی حسن کے ایماء پر