حکومتی معاملات سے عوام کو بے خبر رکھنے کا رجحان بڑھ رہا ہے

اسلام آباد، 24 اکتوبر: انسانی حقوق کے نامور کارکن اور ایچ آر سی پی کے اعزازی ترجمان آئی اے رحمان کا کہنا ہے کہ حکومت فیصلہ سازی اورملکی نظم و نسق میں شفافیت برتنے کے بجائے تقریباً تمام سرکاری معاملات خفیہ انداز سے انجام دیتی نظر آرہی ہے۔ اِن خیالات کا اظہار اُنہوں نے آج اسلام آباد میں ایچ آر سی پی کے’ عوامی آزادیوں کی واگزاری’ کے موضوع پر ہونے والے ایک سیمینار میں کیا۔ ایک طرف ذرائع ابلاغ پرغیرمعمولی سنسرشپ لاگو کی جارہی ہے اور دوسری طرف عدلیہ، بار اورٹریڈیونینیں پھُوٹ کا شکار نظر آرہی ہیں جس سے بنیادی حقوق کی اجتماعی جدوجہد کمزور پڑ رہی ہے۔ شہریوں کو پارلیمان میں متعارف کروائے گئے قانونی مسودوں اور اپنی زندگیوں پراثرانداز ہونے والی حکومتی پالیسیوں اور فیصلوں کے بارے میں جاننے کا مکمل حق ہے۔

شہزاد احمد، اِقبال خٹک اور مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا میں اختلافی آوازوں کو خاموش کروا کے یا انہیں اپنے قابو میں لے کر آزادیِ اظہار کی راہ میں کُھلی اور پوشیدہ رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ آن لائن آزادیاں بھی سائبر بریگیڈز کے حملوں جن کے پیچھے بعض اوقات ریاستی اداروں کا ہاتھ ہوتا ہے، کے نشانے پر ہیں۔ ایڈووکیٹ حیدر امتیاز نے اُن آزادیوں اور حقوق کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی ضرورت پر زوردیا جن کی آئین میں ضمانت دی گئی ہے۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ عدلیہ کے معاملات میں ریاستی اداروں، خاص طور پر گہری ریاست (Deep state) کی مبینہ مداخلت سنگین تشویش کا باعث ہے۔

رومانہ بشیر نے پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی حالتِِ زار پرروشنی ڈالی۔ مذہبی انتہاپسندی مسلسل جاری و ساری ہے اورجبر کے آلے کے طور پراستعمال ہو رہی ہے۔ قومی کمیشن برائے حقوقِ نسواں (این سی ایس ڈبلیو) کی چئیرپرسن خاور ممتاز نے کہا کہ عوامی مقامات پر بڑھتی ہوئی سرکاری پابندیوں کا سب سے زیادہ اثر سول سوسائٹی کے اداروں، خاص کر عورتوں کے حقوق کی تنظیموں پر پڑ رہا ہے۔ اُنہوں نے سیمینار کے شرکاء کو جبر کے خلاف مزاحمت میں عورتوں اور سول سوسائٹی کے نمایاں کردار کی یاددہانی بھی کرائی۔ طاہرہ عبداللہ نے تدریسی نصاب کو نفرت انگیز مواد سے پاک کرنے کی ضرورت پر زور دیا جو اُن کے بقول اسکول کی کُتب کا بدستورحصہ ہے اورمتعصب سوچ کو پروان چڑھا رہا ہے۔

ایچ آر سی پی کے سیکریٹری جنرل حارث خلیق نے اپنے افتتاحی کلمات میں کہا کہ نہ صرف یہ احساس کرنے کی ضرورت ہے کہ بنیادی آزادیاں حملے کی زد میں ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ ٹریڈیونینیں، پیشہ ورانہ انجمنیں، شہریوں کے ادارے، ماہرینِ تعلیم، ذرائع ابلاغ اور سیاسی جماعتیں وفاقیت، جمہوریت اور مساوی شہریت کو یقینی بنانے کے لیے کوئی اجتماعی حکمتِ عملی اختیار کریں۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک اور اس کے عوام کی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ ریاستیں ناقدانہ آوازوں پر کان دھرے اور اپنی روش تبدیل کرے۔

چئیرپرسن ڈاکٹرمہدی حسن کے ایماء پر